ہوم << جس تن لاگے وہ تن جانے - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

جس تن لاگے وہ تن جانے - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

سات جنوری کی صبح دنیا امریکہ کی گولڈن اسٹیٹ کہلانے والی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے متمول ترین علاقے پیسفک پیلیسیڈز میں لگنے والی آگ کی خبر سے جاگی ۔ یہ آگ ہالی وڈ ہلز کی پہاڑی کے جنگلات سے شروع ہوئی تیز ہوا کے باعث اتنی تیزی سے پھیلی کہ دیکھتے ہی دیکھتے 108 کلومیٹر کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور پھر چند ہی گھنٹوں میں ڈھلوان پر بنے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی پورے شہر میں پھیل گئی ۔ یہ علاقہ لاس اینجلس کے امیر ترین افراد کی رہائش گاہ تھا ۔ یہاں ایک گھر کی قیمت اوسطاً چار سے پانچ ملین ڈالر ہے ۔ یہاں ایسے مکان بھی ہیں جن کی مالیت سو ملین ڈالر تک ہے ۔ یہاں زیادہ تر ہالی وڈ کےامیر ترین اداکار رہائش پذیر تھے ۔
جنگل کی آگ پھیلی ، ایسی پھیلی کہ پورا شہر اس لپیٹ میں آگیا ۔ اور اتنی تیزی سے پھیلی کہ قیامت کا منظر تھا ۔ لوگ گھر کھلے چھوڑ کر گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر بھاگے ۔ سڑکیں ایسی گاڑیوں سے بلاک ہوگئیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر جا چکے تھے ۔ یہاں تک کہ آگ بجھانے والی گاڑیوں کو مشکل پیش آئی تو انہیں بلڈوزر کے ذریعے رستے سے ہٹانا پڑا۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی بے بسی اور کسمپرسی دیکھیے کہ اپنی ساری طاقت اور وسائل کے باوجود صرف چند ہی گھنٹوں میں شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا. آگ کے بعد کی تباہی کے منظر انتہائی عبرت ناک ہیں جہاں کبھی پرتعیش مکانات ہوا کرتے تھے، وہاں اب جلے ہوئے سلگتے ہوئے ملبے کے ڈھیر ہیں۔ تباہ شدہ گاڑیاں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ لاکھوں درخت راکھ میں بدل گئے ہیں ہر طرف گرے جلےہوئے درخت ، آگ کی زد میں آنے والی جلی اشیاء بکھری نظر آتی ہیں ۔ آکسیجن کی شدید کمی ہے فضا میں سانس لینا دشوار ہے۔ گولڈن اسٹیٹ کہلانے والی ریاست کے پاس آگ بجھانےوالے آلات ، فائیر بریگیڈ گاڑیوں اور فائر فائٹرز کی شدید کمی ہے۔ حکومت جیل میں بند قیدیوں سے آگ بجھانے کا کام لے رہی ہے۔ پچھلے ایک سال میں60بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد اسرائیل کو دینے والی حکومت کی اپنی سب سے زیادہ امیر ریاست کا خزانہ خالی ہے۔
لاس اینجلس کی تاریخ کی سب سے تباہ کن اس آگ نے 31,000 ایکڑ سے زائد کے رقبے کو جلا دیاہے . ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 10افراد جاں بحق ہوئے ۔ پانچ ہزار سے زائد گھر مکانات اور عمارتیں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ لاکھوں لوگ گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ چند اخباری خبروں کے مطابق سانتا مونیکا پہاڑ کی ڈھلوان پر نصب ہالی وڈ کا مشہور 45 فٹ لمبا نشان ( Hollywood) جو امریکہ کی ثقافتی علامت سمجھا جاتا تھا ، وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آکر تباہ ہو گیا ہے.
2002 ء میں ایک تعمیراتی کمپنی نے میلوں دور سے نظر آنے والے لاس اینجلس شہر اور ہالی وڈ کی علامت اس نشان کے اردگرد کی ایک سو اڑتیس ایکڑ زمین خرید کر یہاں گھر بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس نشان کے ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا جس پر پورے امریکہ میں جیسے زلزلہ آگیا تھا ۔ اسے بچانے کے لئے ایک ٹرسٹ قائم ہواتھا جس نے ساڑھے بارہ ملین ڈالر کی رقم اکٹھی کر کے اسے ختم ہونے سے بچا لیا تھا اور آج لاس اینجلس شہر کی یہ علامت ضرب الٰہی کی زد میں آکر چند ثانیوں میں تباہ ہوگئی۔ لیکن اس خبر کی ابھی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ ہالی وڈ کے مشہور ترین اداکاروں کے ملٹی ملین گھر اس آگ کی زد میں خاک کا ڈھیر بن گئے ہیں جن میں انتھونی ہاپکنز ، پیرس ہلٹن ، جان گڈمین ، مائیکل ٹیلر، متھیو پیری اور ہیری سن فورڈ شامل ہیں .
ابھی تھوڑی دیر پہلے سی این این پر ہالی وڈ کے مشہور ادکار پروڈیوسر اور فلم میکر جیمس وڈ James Wood کو بلکتے ہوئے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ وہ اپنے گھر کو یاد کر رہا تھا کہ اس نے اسے کتنی محبت اور پیار سے بنوایا تھا۔ اور صرف ایک دن پہلے وہ اس گھر کے پر تعیش سوئمنگ پول میں تیر رہا تھا . تو مجھے جیمس وڈ کے اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو کی تعریف میں کہے جملے یاد آنے لگے، غزہ کے مظلوموں پر کی گئی اس کی تنقید آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی۔ یہ وہی جیمس وڈ تھا جو چند مہینے پہلے نتین یاہو کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے فلسطین اور غزہ کے بے بس بے گھر اور مظلوموں کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا ۔ آج جب اس کا اپنا گھر جلا ہے تو شاید اسے غزہ کے وہ ہزاروں جلے گھر بھی یاد آئے ہوں گے جو اس کی پسندیدہ شخصیت نتین یاہو کی وحشت کی بھینٹ چڑھے۔ آج جب وہ خود بے گھر ہوا تو شاید اسے وہ لاکھوں بے بس بے گھر لوگ بھی یاد آئے ہوں گے جو اپنے جلے ہوئے تباہ شدہ گھروں کے باہر ماتم بھی نہیں کر سکتے ۔ جیمس وڈ ! تم تو پھر بھی خوش قسمت ہو کہ تمہیں اپنی فریاد سنانے اپنی بربادی کا نوحہ بیان کرنے اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کی نمائش کرنے کے لئے سی این این جیسا بڑا اور مشہور ترین ٹی وی چینل میسر ہے ، جو تمہاری بہادری کے قصے بیان کر رہا ہے کہ تم نے اپنے پڑوسی بوڑھے کی جان کیسے بچائی۔ تمہیں تو انشورنس نیا گھر بناکر دے گی تم جلے ہوئے گھر سے نکل کر کسی فائیوسٹار پرتعیش ہوٹل میں جا ٹھہرو گے۔ تمہارے پاس اب بھی اتنے پیسے بنکوں میں موجود ہیں جو تمھاری نسلوں کے لئے کافی ہیں، تمھارا تو کوئی بھی پیارا تمھارے گھر کی بنیادوں میں دفن نہیں ہوا ۔ تمھارا گھر تو کسی بم کا نشانہ نہیں بنا ۔ اور تم خوش قسمت ہو کہ گھر کی تباہی کے باوجود ایک آزاد ملک رہتے ہو۔
لیکن غزہ اور فلسطین کے ان بے بس اور مہاجر مجبور انسان کہاں جائیں جنہیں اپنے جلے تباہ شدہ گھر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ۔وہ لاکھوں یتیم کیا کریں جن کے سہارے تمہارے پسندیدہ ہیرو نے چھین لیے۔ جن کو پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ وہ کہاں جائیں جن کے ماں باپ ، بہن بھائی ، عزیز اقارب ، گھر بار ، وطن ،روزگار ، کھیت کھلیان ، روزی روٹی سب کچھ ان سے چھین کر انہیں کھلی چھت کے نیچے زندہ رہنے کے لئے دھکیل دیا گیا ہے ۔جنہیں شدیدسردی میں تن کے پورے کپڑے بھی میسر نہیں۔ لیکن تمہاری اس بے ضمیر دنیاکو آج بھی تمہاری آنکھوں سے بہے آنسو ہی زیادہ عزیز ہیں ساری دنیا کا میڈیا تمہاری بربادی اور تباہی کی داستان ہی بیان کرے گا۔ انسانی تاریخ کی بدترین ہولوکاسٹ اور مظالم کو دکھانے بیان کرنے کا حوصلہ اور اجازت شاید سی این این کو نہیں ہے۔