ہوم << دشمن سے نمٹنا؛ قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے؟ محمد اکبر

دشمن سے نمٹنا؛ قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے؟ محمد اکبر

سوشل میڈیا ہو یا عملی زندگی ، ہر دو جگہ ہمیں دشمنوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ دشمن کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی تلوار لے کر ہمارے سر پر کھڑا ہو یا بلند آواز سے للکار رہا ہو یا ہمارے منہ پر ہماری بے عزتی کرتا ہو اور بتاتا ہو کہ مجھے تم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ بہت کم درجے کی دشمنی ہے اور اس دشمن سے مقابلہ کرنا بہت آسان ہے۔
اصل دشمنی یہ ہے کہ کوئی ہم سے لڑنا چاہے لیکن لڑ نہ پائے، کچھ کہنا چاہے لیکن کہہ نہ پائے ، ٹانگ کھینچنا چاہے لیکن کھینچ نہ پائے، گرانا چاہے لیکن گرا نہ پائے، ہماری سانس بند کرنا چاہے لیکن بند نہ کر پائے۔ ایسا دشمن ہر وقت وار نہیں کرتا، موقع دیکھ کر وار کرتا ہے۔ ہر جگہ ہمارے خلاف نہیں بولتا، جگہ دیکھ کر زہر اُگلتا ہے۔
ہمارے دشمنوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سب سے پہلا دشمن تو شیطان ہے جس کو قرآن نے "عدو مبین" کہا ہے یعنی کھلا دشمن اور الگ سے پورے ایک جملے میں حکم دیا کہ :
فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ اس کو اپنا دشمن سمجھو۔ (سورت فاطر: 6)
اور در اصل یہی دشمن ہماری سب دشمنیوں کی وجہ ہے ۔ اس کے بعد دوسرا دشمن ہمارا نفس ہے جس میں فجور یعنی برائی اور تقوی یعنی بھلائی دونوں رکھ دی گئی ہیں۔ اس کی مثال چھپے اژدھا کی ہے جو تاک میں رہتا ہے کہ انسان غافل ہو اور میں ڈنگ مار دوں۔ نفس انسان کا وہ اندرونی دشمن ہے جو ہمیشہ اسے اپنی خواہشات کی پیروی پر اکساتا ہے۔

نفس و شیطان کے بعد کچھ انسان کی شکل میں دشمن ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ ہماری کامیابی سے جلتے ہیں، کچھ ہماری خوشحالی اور پُرسکون زندگی کو پسند نہیں کرتے، کچھ کو ہمارے عقائد اور اعمال و اخلاق سے عداوت ہوتی ہے، کسی کے دل میں ہماری صلاحیت ایک کانٹا بن کر چھب رہی ہوتی ہے، کسی کو ہمارا مقدر اور اچھا نصیب نہیں بھاتا، کسی کو ادارے یا معاشرے میں ہماری حیثیت سے تکلیف ہوتی ہے، کسی کو ہماری محبت اور تعلق چین سے نہیں رہنے دیتا، کچھ کےلیے ہمارے الفاظ کی معنویت، اُن کی سحر انگیزی اور قبولیت دل میں آگ بڑھکا دیتی ہے، کچھ ہماری کامیابی کو تسلیم کرنے کے بجائے اُس میں خامیاں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ ہماری طرف لوگوں کی توجہ اور حوصلہ افزائی سے نفرت کرتے ہیں ۔

یہ سب انسانی دشمنیاں ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی ہیں اور کہیں نہ کہیں ان کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔
پھر دشمنی کی یہ فہرست طویل ہوتی جاتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا کی بے جا محبت بھی دشمنی کی ایک شکل ہے کیونکہ جب انسان دنیا کی لذتوں اور آسائشوں میں کھو جاتا ہے تو اپنی آخرت کو بھول جاتا ہے۔ اور آخرت کو بھولنا اپنی ذات کو بھولنے کے مترادف ہے جو اپنے ساتھ ہی دشمنی کی ایک صورت ہے۔ جہالت بھی انسان کی دشمن ہے کیونکہ جہالت کی وجہ سے انسان حق اور سچائی سے دور رہتا ہے، غرور و تکبر بھی انسان کے دشمن ہیں جو اندر کے سکون کو برباد کر دیتے ہیں۔ مایوسی ہماری روحانی اور جذباتی ترقی کےلیے زہر ہے ، اسی طرح وقت کا ضیاع کرانے والی تمام چیزیں (چاہے وہ لوگ ہوں، جدید ٹولز ہوں یا غیر ضروری مشاغل) بھی ہماری دشمن ہیں۔ ان چیزوں کی وجہ سے ہم اپنی زندگی کو بہتر کرنے، اسے کارآمد بنانے اور اپنے وجود سے اس کائنات میں رنگ بھرنے سے ناکام رہتے ہیں۔

ان سب چھوٹے بڑے، روحانی و جسمانی، اندرونی و بیرونی ، ضروری و غیر ضروری، معلوم و نامعلوم دشمنوں کے نرغے میں ہماری زندگی گزر رہی ہوتی ہے اور ہم بار بار ان میں سے کسی نہ کسی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے نقصان کی پریشانی بھی رہتی ہے اور کوئی مثبت و تعمیری کام کرنے کی ہمت بھی نہیں ہو پاتی کیونکہ جو شخص دشمنوں میں گرا ہو، اُس کے پاس الگ سے کچھ سوچنے اور کرنے کا وقت نہیں بچتا، وہ صرف دفاع ہی میں لگا رہتا ہے اور زندگی کا اہم وقت دفاع میں گزار دیتا ہے۔ انہی دشمنیوں کی وجہ سے کبھی ہم اداس ہیں، کبھی کسی کے ایک جملے کو لے کر بیٹھ گئے، کبھی کسی کی دھمکی کو سیریس لے لیا، کبھی کسی کے حسد سے پریشان ہیں، کبھی کسی کی بلیک میلنگ میں آ گئے ، کبھی اپنے ہی دل کو توڑ دیا ، کبھی خدا سے دوری اختیار کر لی۔ گویا ان تلاطم خیز موجوں سے کہیں نہ کہیں ہماری زندگی کی کشتی نبرد آزما ہوتی ہے اور ایک ہی جگہ پھنس کر ہچکولے کھا رہی ہوتی ہے ۔

لیکن آج میں قرآن کریم کے ایک جملے کے ذریعے آپ کی سفینہ حیات کو ہواؤں کی مخالف سمت میں چلنا سکھاتا ہوں، دشمنوں کے بیچ میں زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہوں۔ اور وہ طریقہ اس آیت میں ہے:
وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآىٕكُمْؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَلِیًّا وَّ كَفٰى بِاللّٰهِ نَصِیْرًا اور اللہ تمہارے دشمنوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور تمہاری حمایت و مددگاری کےلیے اللہ ہی کافی ہے۔ (سورت نساء: 45)
مومن جب یہ آیت پڑھتا ہے تو وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے کےلیے اللہ کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ اللہ کی ولایت حاصل کر کے اُس کی نصرت و حمایت کا مستحق بن جاتا ہے۔ میں اور آپ کمزور ہیں، کن کن دشمنوں کا مقابلہ کریں گے ؟ ہمیں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کون کچھ قدم ہمارے ساتھ چلنے کے بعد قافلہ بدل لے گا؟ کون دوستی کی رسی کو دشمنی سے بدل کر ہمارے پاؤں کےلیے زنجیر بنا دے گا؟ کون ساتھ بیٹھنے والا ہماری جان ہی لے اڑے گا؟ کچھ نہیں معلوم۔ میں نے اپنی آنکھوں سے گہرے دوستوں کو دشمنی کرتے دیکھا ہے۔ بس ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ۔

آئندہ جب کبھی دشمنوں کے نرغے میں بے سہارا محسوس کریں تو اس حقیقت کو دل کے کانوں سے سنیں اور روح کی گہرائیوں میں اس کی قوت محسوس کریں۔ یہ حقیقت ہر اندیشے کو ختم کر ڈالے گی اور ہر ڈر کو نکال باہر پھینکے گی۔
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗؕ کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے؟ (سورۃ زمر: 36)
فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ عنقریب اللہ تمہاری حمایت میں ان سے نمٹ لے گا۔ (سورۃ بقرہ: 137)
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَ یقین رکھو کہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں سے نمٹنے کےلیے کافی ہیں جو (تمہارا ) مذاق اڑاتے ہیں۔ (سورۃ حجر: 95)

Comments

Avatar photo

محمد اکبر

محمد اکبر دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ قرآن فہمی ان کی پہچان ہے۔ قرآنی اسباق کو نئے اسلوب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف آؤ! رب سے باتیں کریں اور اللہ ہے نا، امید کا راستہ دکھاتی ہیں، شخصیت کی بہترین تعمیر کرتی ہیں۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعۃ الشیخ یحیی المدنی کراچی میں تخصص کے طالب علم ہیں

Click here to post a comment