ہمارے ہمساۓ میں علی انکل کے گھر میں پیر صاحب آئے ہوئے تھے. انہوں نے اپنے دیگر ہمسائیوں کو دعوت ملاقات دی - گھر پہنچ کر دیکھا پیر صاحب صوفہ پر براجمان ہیں اور باقی لوگ زمین پہ بیٹھے ہوئے ہیں. پیر صاحب نے کچھ دیر گفتگو کی، اس کے بعد کھانے پینے کا انتظام تھا - ابھی کھانا پینا چل ہی رہا تھا کہ آذان ہوگئی، مرد حضرات نماز کے لیے چلے گئے مگر پیر صاحب وہیں بیٹھے رہے. ہم بھی اپنے گھر کی طرف چل دیے. بعد میں امی نے علی انکل کی بیوی سے پوچھا کہ آپ کے پیر صاحب مسجد کیوں نہیں گئے. جواب ملا کہ وہ یہاں نماز نہیں پڑھتے، ان کی نماز مکے مدینے میں ہو جاتی ہے - علی انکل بھی پڑھے لکھے تھے اور آج ان کے بچے بھی پڑھ لکھ چکے ہیں مگر آج تک اس بےنمازی پیر کے مرید ہیں. خیر ا یسی اندھی عقید ت کا فائدہ صرف مذہب کے نام پر ڈھونگ رچانے والے نہیں اٹھاتے بلکہ ہر میدان میں ایسے بےکار اور ڈھونگی ماہر ہیں جو لوگوں کی اندھی عقیدت پر چل رہے ہیں.
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کشش ثقل لہروں ( gravitational waves) کی دریافت نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی. اب کیا تھا کہ پاکستان میں مخصوص ناکارہ سائنس دانوں کی چاندی ہوگئی، جنھوں نے عرصے سے اپنی فیلڈ میں کوئی خاص کام کیا ہے نہ ان کا کشش ثقل لہروں سے دور دور کا کوئی تعلق ہے، دوسروں کی دریافت پر مگر یہ ایسے اچھلے جیسے انھوں نے کوئی کمال کیا ہے. جی ہاں یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں تم نے موبائل ایجاد نہیں کیا تو استعمال کیوں کرتے ہو. کوئی پوچھے کہ جب انھوں نے یہ دریافت ہی نہیں کی تو اچانک سے یہ ماہر کیوں بن رہے ہیں؟ کئی پاکستانیوں کا اس کام میں براہ راست تعلق رہا ہے، کئی اس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ آپ کو لیکچر دے سکتے ہیں، ملک میں نہ بھی ہوں تو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے لیکچر ہو سکتا تھا مگر یہاں کچھ لوگوں کو ہر فیلڈ میں جیسے جاہلوں کو سننے کی عادت پڑ گئی ہے .
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر پرویزہود بھوئے میں قابلیت ہے، چونکہ انھوں نے MIT سے بی ایس سی، MS اور پی ایچ ڈی کی ہے ، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان میں قابلیت تھی مگر مسلمانوں سے نفرت اور دانشوری کے شوق میں برباد کردی . فزکس کے مشہور پروفیسر ریاض الدین کہا کرتے تھے کہ ان سے ( یعنی ہودبھوئے سے) ہمیں بڑی امیدیں تھیں مگر اس شخص نے نادیدہ نفرت میں اپنا ٹیلنٹ ہی برباد کر دیا. انھیں صرف سیاست اور اسلام کے خلاف بات کرنے میں دلچسپی ہے یا پھر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے خلاف، اپنے موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں ہے. چنانچہ آج کل وہ تھوک کے حساب سے کشش ثقل لہروں پر لیکچر دے رہے ہیں. کچھ دن پہلے ایک دوست ان کے لیکچر میں شریک تھا. لیکچر تو کشش ثقل لہروں پر تھا مگر اس کے درمیان انھوں نے اپنا پرانا منجن بیچنا شروع کر دیا. پاکستانی تحقیق کے نام پہ دھوکا دیتے ہیں، ہماری مذہبی شدت پسندی ہمیں سائنس میں آگے بڑھنے نہیں دے گی، وغیرہ وغیرہ. دوست اپنے اردگرد دیکھ رہا تھا کہ کتنے اساتذہ اور طالب علم یہاں موجود ہیں جو دن رات تحقیق میں مصروف رہتے ہیں مگر ہود بھوئے کی عقیدت کا ایسا عالم ہے کہ کسی میں ہمّت نہیں ہوئی کہ پوچھے آپ ہمیں طعنے دینے والے کون ہوتے ہو؟ فزکس کے پروفیسر ہو، اور آخری سائنسی مقالہ آٹھ سال پہلے چھپا تھا. ساری زندگی کشش ثقل لہروں پہ کام نہیں کیا، کسی دوسرے کے کام پہ جو تمہاری فیلڈ سے بھی نہیں ہے، اس پر بات کے بہانے غصہ کہیں اور کیوں نکال رہے ہو. کسی نے نہ کہا کہ دنیا میں جو شخص پانچ سال تک کوئی سائنسی کام نہ کرے، اسے کوئی نوکری دیتا ہے نہ سائنس دان مانتا ہے. کسی نے نہ پوچھا کہ آج تک آپ نے کتنے طلبہ کی ریسرچ کو سپروائز کیا ہے؟ اور کسی نے نہ کہا کہ جب آپ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین تھے تو ان تین سالوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کا تناسب77 سے گر کر 13 پر کیوں آ گیا تھا؟
ماضی قریب کی بات نہ کریں، پروفیسر صاحب کا پورے کیریئر دیکھ لیں. دنیا میں تحقیق کے کسی پیمانے سے وہ قائد اعظم یونیورسٹی جیسے معتبر تعلیمی ادارے کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں ممتاز نظر نہیں آئیں گے، مثلا دنیا میں تحقیق کا ایک پیمانہ ایچ انڈکس ہے، پرویزہود بھوئے کا ایچ انڈکس 16 ہے جبکہ فزکس ڈیپارٹمنٹ میں ایسے کئی اساتذہ ہیں جن کا ایچ انڈکس 20 سے زیادہ ہے مگر کوئی ان کا نام نہیں جانتا. واضح رہے کہ ایچ انڈکس کا تعلق تحقیقی مقالوں کی تعداد سے نہیں بلکہ مجموعی تحقیق کے معیار سے ہے. چونکہ موصوف MIT سے فارغ التحصیل ہیں اس لیے ابھی تک پاکستان میں انھیں سائنس کی توپ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایم آئی ٹی کا چارم پہلے کچھ سال ہوتا ہے، پھر آپ کو اپنی قابلیت کے جوہر میدان میں دکھانے ہوتے ہیں. پروفیسر صاحب نے 37 برس قائد اعظم یونیورسٹی میں ملازمت کی اور ان 37 برسوں میں صرف 36 سائنٹیفک آرٹیکل یا مضامین لکھے! اس کے علاوہ ساری زندگی میں چار کتابیں لکھیں، لیکن ان میں سے صرف ایک انے کے اپنے شعبے یعنی فزکس سے متعلق ہے جو 1991 میں لکھی گئی! " Proceedings of the School on Fundamental Physics and Cosmology" دراصل یہ بھی ایک کانفرنس پیپر تھا جس کو بعد از تدوین کتابی شکل دی گئی ورنہ یہ بھی کتاب نہیں. گویا بحیثیت مصنف انھوں نے اپنے پیشہ سے متعلق ایک کتاب بھی نہی لکھی. کاش کہ وہ سائنٹیفک پیپر لکھتے، کوئی تھیسس، کوئی کتاب یا کوئی ایسی ریسرچ کنڈکٹ کرتے جس سے پاکستان کی سائنس فیکلٹی کو فائدہ ہوتا، اور ملک کا نام روشن ہوتا.
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بے عمل پیر جہالت پھیلانے کی وجہ ہیں اسی طرح بےکار سائنس دان سائنس کی ترقی کی میں بڑی رکاوٹ ہیں.
مولوی روکڑا صاحب ، آپ بھی منجن ہی بیچ رہے ہیں۔ بلکل پرویز ہود بائی کی طرح۔ ہود بھائی کے متعلق آپ نے جو لکھا وہ تو سچ ہے۔ پرویز ہودبائی کو سائنس دان نہیں صرف سائینسی تعلیم یافتہ ہے۔ جو کہ پاکستان میں لاکھوں ایم ایس سی پاس موجود ہیں۔
لیکن اس تحریر کی ابتداء ہی آپ نے اپنا "وہابی منجن بیچ پر کی ہے۔ جو کہ شاید آپ کی دماغی ''کشش خلل " کی وجہ سے ہے۔ مجھے لگا آپ نے ہودبائی پر تنقید تو کی لیکن اپنے زہنی وخابیت کو چھپا نہ سکے۔۔ لگتا ہے آپ داعش والے ابوبکر بغدادی کے روحانی شاگرد ہیں۔
پیر صاحبان تو ہمارے گھروں میں بھی آتے ہیں۔ ہم کھبی نیچے نہیں بھیٹے۔ پیرصاحبان نے یہ کھبی نماز چھوڑی بلکہ دوسروں کو ہیمشہ تلقین کی۔ اپنے گمراہ کن نظریا ت پھیلانے کے لئے ہودباھی کی طرح جھوٹی کہانیاں نہ گھڑہیں روکڑا صاحب۔۔۔!
اچھا روکڑا صاحب یہ تو بتائیں، سعودی عرب چند مولوی صاحبان پر روکڑے کے اتنی بارش کیوں کرتاہے۔۔۔؟؟؟
اور روکڑا لینے کے بعد یہ مولوی وہابی کیوں ہو جاتے ہیں۔ زرا اس پر آپ بھی کو تحقیقی مقالہ مرحمت فرمائیں۔ شکریہ۔