پاکستان کی کشمیر پالیسی کیا ہے؟ اہم تر سوال یہ ہے کہ پالیسی ساز کون ہے؟
بھارت کے وزیر خارجہ راج ناتھ تین اگست کو پا کستان آرہے ہیں۔ وہ سارک کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ پاکستان میزبان ہے اور وہ اس کی دعوت پر آ رہے ہیں۔ محترمی حافظ محمد سعید صاحب کا ارشاد ہے: ''راج ناتھ کے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ حکمران بتائیں وہ بھارتی وزیر داخلہ کا استقبال کرکے کشمیریوں کے زخموں پر اور کتنا نمک چھڑکیں گے؟ قوم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے، راج ناتھ کی پاکستان آمد پر بھرپور احتجاج کرے گی‘‘۔ حافظ صاحب کے یہ الفاظ کم و بیش ساری مذہبی جماعتوں کی ترجمانی ہے۔ ایک دن پہلے اسلام آ باد میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام جو کل جماعتی کانفرنس ہوئی، اس میں جو کچھ کہا گیا، حافظ صاحب کی بات اسی کی صدائے بازگشت ہے۔ کانفرنس کا اعلامیہ کہتا ہے: ''مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلے، بھارت سے تمام تجارتی و ثقافتی تعلقات منقطع کیے جائیں‘‘۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ کشمیر کے مسئلے پر اس طرح کا ابہام سامنے آیا ہو۔ ایک موقف حکومت کا ہوتا ہے اور ایک مذہبی جماعتوں کا۔ 1999ء میں پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی دعوت پر جب واجپائی پاکستان آئے تو احتجاج کا فریضہ جماعت اسلامی نے ادا کیا تھا۔ ایسے ہر موقع پر ایک سوال مجھے گھیر لیتا ہے۔ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے۔ ایک طرف وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتی ہے۔ وفود کا تبادلہ ہوتا ہے اور یہ سرکاری موقف بیان کیا جا تا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مذاکرات نہیں، جہاد مسئلہ کشمیر کا حل ہے‘ حکمران بزدل ہیں اور انہیں ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ اب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف صاحب کو تو شخصی کاروبار سے دلچسپی ہے۔ یہ بات صرف مذہبی جماعتیں نہیں کہہ رہیں، بلاول بھی انہیں مودی کا یار کہتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا اور اس کا فیصلہ کرنے کا مجاز کون ہے؟ فیصلہ کہاں ہونا ہے؟ کیا ہر حکومت غدار ہوتی ہے؟
یہ سوال صرف منتخب حکومت ہی کے بارے میں پیدا نہیں ہوتا۔ مشرف صاحب جیسا آمر بھی یہی کہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل مذاکرات ہیں۔ ایک موقف حکومت کا ہے، فوجی ہو یا جمہوری۔ ایک موقف وہ ہے جو اس ملک کی سڑکوں اور محراب و منبر سے بیان ہو رہا ہے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک فریق کے نزدیک مذاکرات کی بات غداری ہے۔ اگر منتخب حکومت کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا جائے گا کہ وہ غدار ہے اور کشمیریوں کے زخموں پہ نمک چھڑک رہی ہے تو کیا اس سے ابہام پیدا نہیں ہو گا؟ اگر ایک اہم ترین مسئلے پر ابہام پیدا ہو گیا تو مسئلہ حل کیسے ہو گا؟ قوم یک سو کیسے ہو گی؟
یہ قضیہ نیا نہیں، 1948ء سے چلا آ رہا ہے۔ مولانا مودودی نے اسی ابہام کی طرف توجہ دلائی تو انہیں جہادِ کشمیر کا منکر کہا گیا۔ مولانا کا موقف بالکل واضح تھا۔ اگر مسئلہ کشمیر کا حل جہاد ہے تو اس کا فیصلہ حکومت کو کرنا چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت اعلانِ جہاد سے پہلے بھارت کے ساتھ اپنے تمام معاہدے ختم کرنے کا اعلان کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل ہے‘ اس لیے پاکستان کا ہر شہری اخلاقاً اور شرعاً حکومت کے فیصلوں کا پابند ہے۔ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ حکومت مذاکرات کی بات کرے اور وہ تلوار اٹھا لے۔ مولانا کے الفاظ ہیں: ''جب تک حکومت پاکستان نے حکومتِ ہند کے ساتھ معاہدانہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں، پاکستانیوں کے لیے کشمیر میں ہندوستانی فوجوں سے لڑنا از روئے شرع جائز نہیں ہے‘‘۔ (مولانا مودودی کی تقاریر... دوم، صفحہ 13)۔
1948ء بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ 1947ء سے حالات جوں کے توں ہیں۔ صورتِ حال آج بھی وہی ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ سرکاری موقف یہی ہے کہ مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جائے گا۔ سرکاری سطح پر ہم مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح کی مادی مداخلت کا انکار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ غیر سرکاری سطح پر اس حکومت کو غدار بھی کہتے ہیں‘ جو بھارت سے مذاکرات کی بات کرے۔ یہ مخمصہ آخر کب تک؟ کیا کوئی مسئلہ اس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟ قومی سطح پر یک سوئی کیسے اور کب پیدا ہو گی؟ یہ ذمہ داری آخر کس کی ہے؟
سادہ بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ہو، پاک امریکہ تعلقات ہوں یا کوئی دوسرا مسئلہ، آئینی طور پر یہ حق پارلیمان اور منتخب حکومت کا ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں ایک حکمتِ عملی ترتیب دے۔ سوال یہ ہے کہ موجود حکومت کی کشمیر پالیسی کیا ہے؟ یہ کب پارلیمان میں زیرِ بحث آئی؟ کب اس پر کابینہ کا کوئی خصوصی اجلاس ہوا؟ اس قوم کو یہ کون بتائے گا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جہاد ہے یا مذاکرات؟ اگر یہ منتخب عوامی حکومت ہے تو کیا عوام اس کے فیصلوں کے پابند نہیں؟ اگر حکومت کسی مہمان کو مدعو کرتی ہے تو کیا وہ پوری قوم کا مہمان شمار نہیں ہو گا؟
ابہام در ابہام کا سلسلہ ہے‘ جو پاکستان کی کشمیر پالیسی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ تواتر سے یہ کہا جاتا ہے کہ کشمیر پالیسی میں منتخب حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ یہ کہیں اور بنتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ پھر یہ پارلیمان کیوں ہے؟ پاکستان میں اقتدار کا مرکز کہاں ہے؟ آج ساری دنیا میں طاقت کے بہت سے مراکز ہیں‘ لیکن کوئی ایک مرکز ایسا ضرور ہے جہاں سب مراکز کے نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے ایک پالیسی بنتی ہے‘ جس پر عوام میں یکسوئی پیدا کی جاتی ہے۔ اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے مشاورت اور منصوبہ بندی کہیں اور ہوئی لیکن حتمی فیصلہ امریکی صدر نے کیا اور اسی نے اس پر قوم کو اعتماد میں لیا۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟
راج ناتھ کی آ مد پر ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ یہ بتایا جائے گا کہ مودی کے یار اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور کشمیریوں کے حقیقی خیر خواہ سڑکوں پر ہیں۔ پھر کسی 'حقیقی خیر خواہ‘ کو آواز دی جائے گی کہ وہ آئے اور قوم کو ایسی قیادت سے نجات دلائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ خیر خواہ آ گیا تو وہی کرے گا جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ پہلے آنے والے خیر خواہوں نے آخر کیا کیا؟ قوم کا ابہام اپنی جگہ باقی رہے گا۔
یہ ابہام ہے جو منزل کھوٹی کرتا ہے؟ ابہام عدم یک سوئی سے جنم لیتا ہے۔ جب فیصلے کا مرکز ایک نہ ہو، بہت ہوں تو یہی ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کی کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے کا ایک نکتہ اس جانب ہماری رہنمائی کرتا ہے: ''پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے آزادی کشمیر ایکشن پلان تیار کیا جائے‘‘۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ اس اعلامیے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں جہاد کا ذکر نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سفارتی اور سیاسی اقدامات کی بات کی گئی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مذہبی جماعتیں اپنے طور پر اس اعلامیے کی پابندی کریں گی؟ کیا وہ عوام کو بھی یہ سمجھائیں گی کہ مسئلہ کشمیر کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں؟
تبصرہ لکھیے