مرد کا المیہ!
روئے زمین پر سانس لینے والا پہلا انسان مرد تھا! اور غالباً صبحِ ابد تک ہمکتا دمکتا رہے گا۔
مرد ہونا فی زمانہ تو جیسے کوئی گالی بن گیا ہو۔ یورپ سے برآمد شدہ فیمنزم اور اس کے اثرات کی لیپٹ میں آنے والا ایشیاء بھی مرد کو اب مطعون ہی کرتا نظر آتا ہے۔
"مرد ریپسٹ ہیں"، تو کیا تمام ہی مرد ریسپٹ ہیں؟ کیا مٹھی بھر مردوں کا بہتان ہر مرد کے دامن کو داغدار کرے گا؟ بھلا یہ کہاں کی عقلیت پسندی ہے؟ کہاں کا انصاف ہے!
اس بات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ بر صغیر میں عورتوں سے ناروا سلوک ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے، مگر اسے بالخصوص اسلام اور بالعموم تمام مردوں کے اعمال پر منطبق کرنا خارج از عقل ہے۔ اس کی جڑیں بھی اس خطے میں ہزاروں سال سے رائج سناتن دھرم (ہندومت) سے جا ملیں گی۔ تاریخ میں سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت جھول بھی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی زمانے میں عورتوں کو 'مال' سمجھا جاتا رہا ہے مگر اس بات سے صرفِ نظر کون کرے گا کہ تاریخ میں سب سے زیادہ مصائب بھی مرد کی ذات ہی نے برداشت کیے!
جنگیں، بھوک، صارفیت اور صنعتی انقلاب کے نام پر استحصال، یہ سب مردوں کی ذات نے برداشت کیے۔ آج یورپ جس روشن خیالی اور برابری کا درس دیتا ہوا عورت کو مرد کے 'برابر' لانے کی کوششیں کر رہا ہے، کیا اس میں عورتیں بھی اسی استحصال کا شکار نہیں ہو رہیں جس شکار مرد ہمیشہ ہوتا آیا ہے؟
صارفیت اور نام نہاد روشن خیالی کی دنیا نے عورت کی sexual objectification کے ذریعے کیا اس کا استحصال نہیں کیا؟ کیا اس تمام تحریک نے sexual frustration کو مزید ہوا نہیں دی؟ کیا ضروری تھا کہ مانعِ حمل اشیاء سے لے کر صابن، دودھ بیچنے کے لیے چست بدن کی متحمل شہوت انگیز خواتین کو استعمال کیا جائے ؟
ہمارے 'دانش ور' کسی بھی معاملے پر بات کرتے ہوئے معروضیت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اس سے مرضی کے نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اسے انگریزی میں conflicts of interest کہا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم کہ ہم بہ حیثیتِ قوم ابھی تک intellect crisis کا شکار ہیں اور بے سمت بھی ہیں!
جہاں چند مردوں نے عورتوں کے حقوق غصب کیے، وہاں اکثریت ایسے مردوں کی بھی ہے جو دن رات اس لیے گھس رہے ہیں کہ ان کے گھر میں چولہا جلنے کا سلسلہ چلتا رہے، ان کی بیویاں اور اولادیں سکھ میں رہیں! میں مکرر کہوں گا کہ روئے زمین پر سب سے بڑھ کر جس جنس کا استحصال ہوا وہ مرد ہے!
قدرت نے جہاں مرد کو عورت کے مقابلے میں طاقتور اور ذہین بنایا، وہیں اس تمام 'نا انصافی' (طنزاً) کو توازن میں لانے کے لیے اس پر ذمے داریوں کی لمبی فہرست عائد کردی جو تادمِ تحریر عائد ہے۔
ضرورت اس امر کی کہ دونوں جانب بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی کوششیں کی جائیں، اور نام نہاد برآمد شدہ نظریات کے پرچار سے پہلے معروضی انداز میں عمیق نظری سے اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
آج کا دن ان تمام مردوں کو مبارک ہو، جنہوں نے عورتوں کی زندگیوں میں اپنے خون پسینے سے سکھ لایا، ان تمام مردوں کو جنہوں نے عورتوں سے محبت کی اور انہیں شاعری میں لا کر امر کردیا۔ ان تمام مردوں کو جو
'گھر چلانے کا تقاضا ہے کہ گھر میں نہ رہو'
کے مصداق بن گئے۔ ان تمام مردوں کو جنہوں نے اپنی مردانگی ہاتھ اٹھانے کے بجائے ذمے داری اٹھانے کو سمجھا۔ ان تمام مردوں کو جو عورتوں کا فخر ہیں، جو ان کے محافظ ہیں!
تاکہ تو سمجھے کہ مردوں کہ بھی دکھ ہوتے ہیں
میں نے چاہا بھی یہی تھا کہ تیرا بیٹا ہو
جواد شیخ
تبصرہ لکھیے