شام کے دارالسلطنت دمشق کے شمالی ضلع الصالحیہ میں ایک اونچا پہاڑ ہے جسے جبل قاسیون کہتے ہیں
اس پہاڑ کی چوٹی پر گھنے لمبے اور سر سبز درختوں کی چھاؤں میں ابن عربی دفن ہیں
ایران اور ترکی (خصوصا وہ لوگ جن کی مادری زبان فارسی ہے) آپ کو ابن عربی کہتے ہیں جب کہ مغرب میں اور اہل عرب آپ کو ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت الشیخ الأکبر کے لقب سے ملی اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب آج تک کسی دوسری شخصیت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
انہیں سلطان العارفین بھی کہتے ہیں
یہ مقبرہ اور اس سے متصل عمارات نویں عثمانی سلطان اور پہلے عثمانی خلیفہ سلیم اوّل نے بنوائیں
کہتے ہیں 1517 ء میں جب سلطان سلیم نے مملوک مصر کو شکست دے کر مصر اور مشرق وسطی فتح کیے تو اس کے مفتوحہ علاقوں میں حجاز، شام ،عراق اور فلسطین کے علاقے بھی شامل تھے
قسطنطنیہ واپس جاتے ہوئے وہ دمشق سے گذرا
اور دمشق پہنچنے کے بعد سب سے پہلے اس نے ابن عربی کے مزار پر حاضری دی
اور جب تک دمشق میں رہا ابن عربی کے مزار کے باہر خیمہ زن رہا
کیونکہ سلاطین عثمانیہ ابن عربی کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے اور ان کا بہت احترام کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ سلطنت عثمانیہ ابن عربی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے
مزار کی شکستہ حالت دیکھ کر اسے بہت رنج ہوا اور اس نے ہنگامی بنیادوں پر ایک شاندار مقبرہ اور اس سے ملحقہ ایک عظیم الشان مسجد یونیورسٹی ، ہسپتال ، یتیم خانہ اور لنگر خانہ تعمیر کرنے کا حکم دیا
اور اس کمپلکس کے اخراجات کے لئے ایک بہت بڑی جاگیر مختص کی
بعد میں آنے والے عثمانی سلاطین نے ان عمارات میں کئی اضافے کئے
موجودہ مقبرے کا نقشہ اور عمارت وہی ہے جو سلطان سلیم اوّل نے 1517ء میں بنوائی تھی
یہ مشرق وسطیٰ میں سلاطین عثمانیہ کی جانب سے تعمیر کروائی جانے والی پہلی عمارت بھی ہے
ابو عبداللّہ محمد بن علی بن محمد ابن عربی الحاتمی الطائی کے والد کا تعلق عرب کی مشہور شخصیت حاتم طائی کے قبیلے سے تھا اور والدہ بربر تھیں
وہ 28 جولائی 1165ء کو مریسیہ اندلس میں ایک امیر و کبیر خاندان میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے
ان کے والد علی ابن محمد حاکم مریسیہ کے خاص مصاحبین میں شامل تھے
بعد میں وہ موحدین سلطان ابو یعقوب یوسفی کے وزیر مقرر ہوئے اور اشبیلیہ منتقل ہوگئے اس لئے ابن عربی کا بچپن بہت عیش و آرام اور نازو نعم میں بسر ہوا
اشبیلیہ اس دور میں سلطنت اندلسیہ کا دارالسلطنت تھا اور مسلم تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا اس کا موجودہ نام Seville ہے جہاں وہ مدرسہ آج بھی موجود ہے جس میں ابن عربی نے اپنی تعلیم حاصل کی ان کی شادی ایک بہت امیر گھرانے میں ہوئی اور بیوی کا نام مریم تھا
انہوں نے فوجی تربیت بھی حاصل کی اور کچھ عرصہ فوج میں ملازمت بھی کی
یہیں انہیں وہ واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی کا ایک نیا رخ متعین کر دیا اور سوچنے کا انداز بدل دیا
ایک دفعہ آپ اشبیلیہ کے کسی بہت دولتمند امیر کے ہاں دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بھی بلایا گیا تھا۔ کھانے کے بعد جب رقص و سرود کی محفل سجی جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں پکڑا، تو انہیں لگا جیسے کسی نے انہیں مخاطب ہو کر کہا ہو
کہ " اے محمد کیا تم کو اسی لیے پیدا کیا گیا تھا؟" آپ نے جام کو ہاتھ سے رکھ دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل گئے۔ عمارت کے بیرونی دروازے پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور شہر سے باہر اپنے کپڑوں کا اس کے کپڑوں سے تبادلہ کیا۔ کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومنے پھرنے کے بعد آپ ایک قبرستان پر پہنچے، جو نہر کے کنارے واقع تھا۔ آپ نے وہاں پر ڈیرا لگانے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں جا اترے۔ دن اور رات ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے اور سوائے نماز کی ادائیگی کے وقت کے اس میں سے نہ نکلتے تھے۔ چار روز کے بعد آپ باہر نکلے، تو آپ کی کایا پلٹ چکی تھی ایک امیر زادہ فقیر اور درویش بن چکا تھا آگہی اور معرفت کا ایک دریا آپ کے سینے میں موج زن تھا
آپ نے اس کے بعد اپنے شیخ ابوالقاسم بن قسی کی زیر نگرانی ایک نو ماہ کا چلہ کاٹا۔
اور یوں ناز و نعم میں پلے اس شہزادے کی زندگی بد ل گئی
والد اور والدہ کی وفات کے بعد ان پر دو جوان بہنوں کی ذمہ داری آن پڑی
بہنوں کی شادی سے فراغت کے بعد وہ اس راہ پر چل پڑے جس کا ان کے رب نے ان سے وعدہ لیا تھا حالانکہ سلطان انہیں اپنے دربار سے وابستہ رکھنا چاہتا تھا اس نے انہیں قاضی القضاہُ کے عہدے کی بھی پیشکش کی اور وزیراعظم بنانے کی بھی لیکن انہوں نے یہ پیشکشیں ٹھکرا دیں اور دویشی کی راہ اختیار کی
وہ خود لکھتے ہیں کہ میں شاکر غنی اور صابر فقیر میں سے صابر فقیر کو افضل سمجھتا ہوں
اور میں نے اپنے لیے فقر کا ہی راستہ اختیار کیا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
" میں کسی حیوان کا ہرگز مالک نہیں ہوں اور نہ ہی اس کپڑا کا، جس کو میں پہنتا ہوں نہ اس مکان کا جس میں رہتا ہوں
میں تو مسافر ہوں ۔”
لہذا انہوں نے خواب میں ملنے والی ہدایت کے مطابق اندلس چھوڑ دیا تیونس کا سفر اختیار کیا اور آٹھ سال وہاں قیام کیا جہاں پر آپ اپنے دوست ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ہاں ٹھہرے ۔
وہاں پر آپ نے اپنے قیام کے دوران دوست کی فرمائش پر اپنی کتاب روح القدس رقم کی
پھر مصر اور وہاں سے حجاز مقدس کی طرف عازم سفر ہوئے
وہ 1202 ء میں حج کے لئے مکہ پہنچے
مکہ آپ کے نزدیک عالم الغیب اور عالم الشہود کا مقام اتصال ہے
مکہ میں دو سال قیام کیا اور اسی دوران انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “ الفتوحات المکیہ “ لکھی جو 4000 صفحات پر مشتمل ہے اس
کے 560 ابواب ہیں اور تصوف پر لکھی جانے والی کتب میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔
ابن عربی 1204ء میں مکہ سے روانہ ہو کر بغداد، موصل اور دوسرے شہروں سے ہوتے ہوئے 1205ء میں قاہرہ پہنچے، جہاں آپ پر ارتداد کا الزام لگایا گیا، مگر ایوبی حاکم الملک العادل نے آپ کی جان بچائی۔ 1206 ء میں آپ ایک بار پھر مکہ آئے اور ایک سال تک وہاں پر قیام کیا۔ اس کے بعددمشق ، موصل اور حلب سے ہوتے ہوئے آپ ایشیاءکوچک (ترکی ) چلے گئے،
1207 ء میں قونیا پہنچے۔ یہاں پر سلجوقی سلطان کیکاؤس نے آپ کا بہت ادب و احترام کے ساتھ استقبال کیا اور آپ کی رہائش کے لیے ایک مکان بنوایا، جسے آپ نے بعد میں ایک بھکاری کو دے دیا۔ قونیا میں آپ کی آمد مشرقی تصوف میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس کا وسیلہ آپ کے شاگرد اور سوتیلے بیٹے صدر الدین قونوی بنے، جن کی ماں سے آپ کی شادی ہوئی۔ صدر الدین قونوی، جو آگے چل کر تصوف کے علائم میں شمار ہوئے، مولانا جلال الدین رومی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر شرح لکھی، جو آج تک حرف آخر سمجھی جاتی ہے
اسی دوران انکی ملاقات خاندان عثمانیہ کے جد امجد اور کائی قبیلے کے سردارارطغرل غازی سے ہوئی ان دنوں کائی قبیلہ زمین اور پناہ کی تلاش میں دربدر پھر رہا تھا
انہوں نے ارطغرل کو بزنطینی سلطنت کی مشرقی سرحد پر واقع سوت Sogut کی طرف ہجرت کی ہدایت کی اور اسے یہ بشارت دی کہ ایک دن اس کی نسل تین براعظموں پر حکومت کرے گی اور خلافت اسلامیہ کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائے گی
وہاں سے آپ بغداد تشریف لائے، اور 1235 ء میں دمشق آ گئے اور پھر آخر عمر تک وہیں مقیم رہے
جہاں 16 نومبر 1240ء کو پچھتر سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا
اور یوں علم وادب کا یہ روشن سورج جو مغرب (اندلس) سے طلوع ہوا تھا ساری دنیا کو اپنی روشنی سے منور کرنے کے بعد مشرق میں غروب ہوگیا
انہیں تصوف کے ایک نئے سلسلے “اکبر یہ “ کا بانی سمجھا جاتا ہے جو وحدت الوجود کے نظریے پر قائم ہے اور آج اس سلسلہ تصوف کی شاخیں دنیا کے ہر ملک خاص طور پر یورپ امریکہ ، ترکی اور عرب ممالک میں قائم ہیں جہاں اس سلسلہ تصوف کے ماننے والے بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں
ابن عربی دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عالم ، مفسر ، عارف، محقق، فلسفی ، شاعر ، جراح ، ڈاکٹر ، ماہر نجوم اور قدوہ علما اور علوم كا بحر بیكنار ہیں۔ انہیں اسلامی تصوف میں شیخ اکبر کے نام سے یاد كیا جاتا ہے اور تمام مشائخ آپ كے اس مقام پر تمكین كے قائل ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلامى میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔ ان کا قول تھا کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے۔ بعض علما نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر صوفیا انھیں شیخ الاکبر کہتے ہیں۔
آپ تصوف کے قائل ہوں یا نہ ہوں
آپ صوفی ازم کو مانیں یا نہ مانیں
وحدت الوجود پر ایمان لائیں یا نہ لائیں
آپ ابن عربی کی عظمت اور فضیلت ان کے علمی مقام اور مرتبے سے انکار نہیں کرسکتے
بلاشبہ ان جیسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اور رہتی دنیا تک نجم ثاقب بن کر اندھیری رات کے مسافروں کو راہ دکھاتے ہیں
ولیم چٹ ٹک William ChitTick
نے ابن عربی کو مغربی دنیا میں روشناس کروایا
اس کا ابن عربی پر کیا جانے والا تحقیقی کام اپنی مثال آپ ہے۔
اس نے ابن عربی کی کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔
اس ایک انتہائی شاندار کتاب
“ ابن عربی انبیاء کا وارث “
Ibne Arabi - Heir to the Prophets
ایمزن پر دستیاب ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ولیم کی ایک اور کتاب
Self Disclosure of God
Principals of Ibne Arabi’s
Cosmology
بھی ابن عربی پر لکھی گئی شاہکار کتاب ہے ۔
ابن عربی نے پانچ سو سے زائد کتابیں لکھیں بیشتر آج بھی موجود ہیں
عثمان یحییٰ نے ابن عربی کی سوانح عمری لکھی جس میں ان کی 846 کتب کے عنوان درج کیے ہیں ۔ ان کی بیشتر کتابوں کا دنیا کی تمام مشہور زبانوں میں ترجمہ ہوا
ان کی تقریباً تمام ہی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے
ان کی کتب دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں ان پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاتے ہیں
فصوص الحكم اور فتوحات مکیہ پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں
ابن عربی كى مندرجہ ذيل كتابوں كا اردو ترجمہ موجود ہے
فصوص الحکم
• • فصوص الحكم ترجمہ عبد الغفور دوستى (1889 حيدرآباد دكن)۔
• فصوص الحكم ترجمہ سيد مبارك علی (1894 كانپور)۔
• فصوص الحكم ترجمہ مولوى عبد القدير صديقی يہ كتاب پنجاب يونيورسٹى كے نصاب ميں شامل ہے۔
• مولانا اشرف علی تھانوى نے فصوص الحكم پر تعليقات درج كي ہیں كتاب كا نام ہے خصوص الكلم جس مين انہوں نے ابن عربی كا دفاع كيا ہے۔
• پیر مہر على شاہ صاحب كى كتاب تحقيق الحق فی كلمۃ الحق اور ملفوظات مہريہ ابن عربی كے دفاع ميں اپنى مثال آپ ہے۔
• ابرار احمد شاہی،
فتوحات مكيہ
• • فتوحات مکیہ ترجمہ مولوی فضل خان مرحوم ( وفات 1938) جس ميں پہلے 30 فصول كا ترجمہ كيا گیا تھا۔
• فتوحات مکیہ ترجمہ سليم چشتی 1987 تك ترجمے کی چار جلدیں شائع ہوئيں۔
• فتوحات مکیہ ترجمہ فاروق القادرى پہلی 2 فصول کا ترجمہ 2004ء میں شائع ہوا
رسائل ابن عربی
• • ابن عربی کے چار رسائل
1. شجرة الكون
2. الكبريت الاحمر
3. الامر المحكم والمربوط
4. كتاب الاخلاق و الامر
كا ترجمہ 2001ء میں لاہور سے شائع ہوا ہے مترجم محمد شفيع ہیں۔
رسائل ابن العربى (جلد اول)
• • ابن عربی فاونڈیشن نے عصری تقاضوں كو مدنظر ركھتے ہوئے جدید اور عصری اردو میں شیخ اكبر كے سہل تراجم كرنے كا بیڑا اٹھایا اس سلسلے كی پہلی كڑی رسائل ابن عربی (جلد اول) جون 2008 میں منظر عام پر آئی اس كتاب میں شیخ اكبر كے درج ذیل كتب اور رسائل شامل كئے گئے ہیں :
• كتاب الجلال والجمال
• كتاب الوصيۃ
• حليۃ الابدال
• نقش الفصوص
• رسالۃ الفناء في المشاہدہ
• كتاب اصطلاحات الصوفيۃ
• رسالہ الي امام الرازي
• كتاب الألف و ہو كتاب الأحديہ
• القسم الإلھي
• الجلالہ و ہو كلمة اللہ
• كتاب التراجم
• ميم واو نون
• التدبيرات الإلهية في اصلاح المملكة الإنسانية
مملكت انسانی كی اصلاح میں خدائی تدبیریں دسمبر 2008 كو شائع ہوئی۔
• مشكاة الأنوار فيما روي عن اللہ من الأخبار بنام101 احادیث قدسی
مکمل عربی متن اردو ترجمے اور شیخ اکبر کے نزدیک احادیث کی اہمیت پر شامل مقدمے کے ساتھ ابن عربی فاونڈیشن پاکستان سے شائع ہوئی۔ تحقیق عربی متن: اسٹیفن ہرٹنسٹائن اور مارٹن ناٹ کٹ مترجم: ابرار احمد شاہی
• الإسفار عن نتائج الأسفار بنام روحانی اسفار اور ان کے ثمرات، تحقیق شدہ مکمل عربی متن، اردو ترجمے کے ساتھ ابن عربی فاونڈیشن سے شائع ہوئی۔
، تدوین عربی متن: ڈینس گرل (داؤد الفقیر) فرانسیسی اسکالر، ابرار احمد شاہی
• روح القدس فی مناصحة النفس
• نفس کا آئینہ حق
آپ تصوف کے قائل ہوں یا نہ ہوں
آپ صوفی ازم کو مانیں یا نہ مانیں
وحدت الوجود پر ایمان لائیں یا نہ لائیں
آپ ابن عربی کی عظمت اور فضیلت ان کے علمی مقام اور مرتبے سے انکار نہیں کرسکتے
بلاشبہ ان جیسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اور رہتی دنیا تک نجم ثاقب بن کر اندھیری رات کے مسافروں کو راہ دکھاتے ہیں
تبصرہ لکھیے