ہوم << قصہ نیوزی لینڈ یاترا اور ولنگٹن کے اقبال ڈے کا - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قصہ نیوزی لینڈ یاترا اور ولنگٹن کے اقبال ڈے کا - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

ولنگٹن والوں نے پھر یوم اقبال کی محفل سجائی تھی ۔ اطہر اعوان ہر سال اپنی فلاحی تنظیم چیرٹی نیوزی لینڈ کے تحت ولنگٹن میں یوم اقبال مناتے ہیں ۔ بہاولپور کے رہنے والے اطہر اعوان اقبال کے شیدائی ہیں اور دنیا کے اس انتہائی دور دراز خطے میں بھی اقبال کا پیغام پھیلانے سے باز نہیں آتے ۔ وہ ہرسال نیوزی لینڈ کے رہنے والے پاکستانیوں کو یوم اقبال کے نام پر وکٹوریہ یونیورسٹی ولنگٹن میں اکٹھا کرتے ہیں ۔
پاکستان کے باسیوں کے لئے جہاں لوگ اب اقبال کا نام بھی بھولتے جا رہے ہیں یہ بات یقیناً اچھنبے کا باعث ہو گی کہ ان بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کا آخر مسئلہ کیا ہے جو انہیں نیوزی لینڈ جیسے ملک میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتا تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم مہاجروں کا یہی مسئلہ سب سے بڑا ہے کہ وطن سے دوری بھی ہماری وطن عزیز سے محبت میں کمی کا باعث نہیں بنتی بلکہ ہم لوگ تو جیتے ہی اپنی مٹی کے لئے ہیں ہماری ادھوری زندگیوں کی تکمیل ہی ایسی سرگرمیوں سے ہوتی ہے جو ہمیں ہماری مٹی سے جوڑتی ہیں ۔
پچھلے سال بھی ولنگٹن میں ہونے والی یوم اقبال کی تقریب میں شرکت کی تھی ۔ حمزہ سربلند نے اس تقریب کی میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے تھے ۔
اس سال وہ ایران میں ہے ۔ جہاں وہ فارسی پڑھ رہا ہے ۔
ابھی خالد مسعود صاحب کی رفاقت میں گزارے کینز Cairns سنشائین کوسٹ Sunshine Coast ,گولڈ کوسٹ Gold Coast اور گریٹ بیرئیر ریف Great Barrier Reef کے خوبصورت انمول لمحوں کی خوشبو ماند نہیں پڑی تھی کہ اطہراعوان صاحب کا محبت نامہ موصول ہوا کہ “آپ نے ضرور اس تقریب میں شرکت کرنی ہے “ ۔ اور پھر پیارے دوست احسن ارشد صاحب کا اصرار بھرا پیغام بھی ملا ۔ کوئی اور موقعہ ہوتا تو انکار کر دیتے کہ مصروفیت بہت تھی دو ہفتوں بعد سری لنکا کا پروگرام طے ہے اور اس کے بعد پاکستان جانا ہے جہاں والدہ راہ میں آنکھیں بچھائے انتظار کی گھڑیاں گن رہی ہیں۔ لیکن پیرو مرشد اقبال کے نام پر ہونے والی اس تقریب میں شرکت سے انکار بھی ممکن نہ تھا کہ ایسی خوبصورت محفلیں پردیس میں بہت کم کم دیکھنے کو ملتی ہیں ؀
ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
میں پہلے آک لینڈ پہنچا جہاں چھوٹے بھائی فرحان قریشی اور ان کی بیگم مدیحہ کی مہمان نوازی نے دل موہ لیا وہ مجھے ہملٹن لے گئے ۔
انتہائی خوبصورت اور دلکش ہملٹن گارڈن دنیا کے چند خوبصورت ترین باغوں میں سے ایک ہے اس باغ کے سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ہملٹن والوں نے صرف پھل پھول بوٹے اور درخت نہیں لگائے بلکہ انہوں دنیا کے ہر خطے کے باغیچوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کر دیا ہے ۔
اور انہیں زمانوں کے اعتبار سے تقسیم بھی کیا ہے قدیم یونانی اور رومی طرز کے باغیچے سے لے کر فرعونوں کے پائیں باغ تک اور مغلوں کے بارہ دری اور فواروں سے سجے چار باغ گارڈن تک اور جدید دور کے کچن گارڈن سے کلونیل طرز کے باغیچے تک ہر دور کا باغ اور ہر زمانے کا باغیچہ آپ کو یہاں نظر آئے گا ۔ یہ ایک طلسم ہوش ربا ہے جس میں آپ ایک بار داخل ہوجائیں تو پھر واپسی کا رستہ گم ہو جاتا ہے ۔
یہ باغ نہیں لوئس کیرل کی ونڈر لینڈ ہے جس میں جب آپ
ایلس ان ونڈر لینڈ کی طرح ایک بار اس کے اندر داخل ہوجائیں تو پھر ایک باغیچے سے دوسرے باغیچے میں اور ایک باغ سے دوسرے باغ میں زمان ومکان کی دوریاں طے کرتے بھٹکتے رہتے ہیں ۔
ایک جگہ ایلس بھی ایک تخت پر اپنے دوسرے سارے کرداروں مسٹر وائیٹ ریبیٹ White Rabbit لوری Lorry , ڈوڈو Dodo ماؤس Mouse ، کوئین آف دی ہارٹ اور کنگ آف دی ہارٹ کے ساتھ چاۓ کی ٹیبل سجائے بیٹھی نظر آتی ہے
نیوزی لینڈ کو اللّہ نے اتنا حسن بخشا ہے کہ شائید ہی اس دنیا میں کوئی اور خطہ خوبصورتی اور دلکشی میں اس کا مقابلہ کر سکے ۔ کئی بار نیوزی لینڈ آنا ہوا لیکن ہر بار لگا اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں ۔
وقت کی کمی کے باعث سوچا اس بار کم سے کم وقت میں نیوزی لینڈ کی زیادہ سے زیادہ خوبصورتی سے مستفید ہوا جائے ۔
اس کے لئے ناردرن ایکسپلور ٹرین Northeren Eplorere Trai سے بہتر کوئی اور ذریعہ نظر نہ آیا ۔
یہ ریل گاڑی آک لینڈ اور ولنگٹن کا درمیانی 680 کلومیٹر کا فاصلہ بارہ گھنٹوں میں طے کرتی ہے اور سارے شمالی جزیرے کے درمیان سے گزرتی ہے ۔ اس ٹرین کا سفر دنیا کے خوبصورت ترین ٹرین کے سفروں میں سے ایک ہے ۔
برف پوش پہاڑوں، سر سبز گھاس سے لدے میدانوں ، ان میں چرتے مویشیوں ، دھوئیں سے گھرے ابلتے گرم پانی کے چشموں ، آتش فشاں چوٹیوں ، سفید جھاگ اڑاتی اونچی آبشاروں ، سبزے سے گھری خوبصورت جھیلوں ، نیلے آسمان پر تیرتے سفید بادلوں اور دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتی ہوئی یہ ٹرین دور جدید کا ایک عجوبہ ہے ۔ جسے انگریزوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں ہی مکمل کر لیا تھا۔
اس آرام دہ ٹرین میں گزارے یہ بارہ گھنٹے آپ کی زندگی کے خوبصورت ترین اور انمول لمحے بن جاتے ہیں جن کی خوشبو تاعمر دل کے نہاں خانے کو مہکاتی ہے ۔
صبح ساڑھے سات بجے شروع ہونا والا یہ سفر جب شام سات بجے ولنگٹن میں اختتام پزیر ہوا تو بارہ گھنٹے بعد بھی دن کی روشنی ابھی باقی تھی سورج ڈوبنے میں ابھی بہت دیر تھی ۔
ولنگٹن ریلوے سٹیشن پر ڈاکٹر احسن رشید دیگر تین اور ڈاکٹروں کے ساتھ منتظر ملے ۔
ڈاکٹر احسن رشید صادق آباد کے رہنے والے ہیں اور قائداعظم میڈیکل کالج کے گریجوئیٹ ہیں اور ولنگٹن کے معروف Interventional Cardiologist ہیں ۔ ہم مزاج وہم خیال ڈاکٹر احسن کے ساتھ سب سے بڑا رشتہ تحریک کاہے دور طالبعلمی میں وہ بھی مولانا مودودی کی اسی زلف کے اسیر رہے جس نے ہماری زندگیوں کے رخ بھی تبدیل کر دئیے تھے ۔
ڈاکٹر فاروق پنجاب میڈیکل کالج کے جونئیر ہیں اور ولنگٹن ہسپتال میں میڈیکل سپشلسٹ ہیں ۔ اٹک کے رہائشی ڈاکٹر قاسم بھی تحریکی ساتھی ہیں انہوں نے Nano Microbiology میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ڈاکٹر یاسر بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں ۔
قہقہوں ، چٹکلوں اور مسکراہٹوں سے بھری ان دوستوں کی صحبت نے بارہ گھنٹے کی وہ ساری کمی اور تھکاوٹ واکتاہٹ دور کر دی جو ٹرین کے سفر میں کسی ہمنوا اور ہم زبان کے نہ ہونے کی وجہ سے محسوس ہورہی تھی ۔
ولینگٹن کے ایرانی ریستیوران کے انتہائی لذیذ مشکل نام والے ایرانی کھانوں نے منہ کے ذائقے کو بھی بحال کر دیا جو ان بارہ گھنٹوں میں اچھے کھانے کو ترس رہا تھا۔ اس ایرانی ریستیوران کے پاکستانی شیف کے اس دعویٰ کو سب ہی دوستوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ کہ وہ نیوزی لینڈ آنے سے پہلے ملائشیا میں مہاتیر محمد اور دو ملائشیئن بادشاہوں کا شاہی باروچی رہا تھا ۔ کراچی کا یہ نوجوان نستعلیق اردو بولتا تھا اور نسوار کھاتاتھا ۔ اس کی نسوار بھی موضوع گفتگو رہی ۔
اگلے دن کا آغاز ڈاکٹر فاروق کے گھر ناشتے سے ہوا ان کی بیگم ڈاکٹر ارم فاروق بہت ادب نواز اور لکھنے پڑھنے والی خاتون ہیں ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں
ان کی فکر انگیز گفتگو ناشتے کی لذت پر چھائی رہی ۔ باقی کا سارا دن ڈاکٹر احسن کی صحبت میں گزرا انہوں نے مہمان نوازی کا فریضہ خوب نبھایا ۔ بلکہ حق ادا کر دیا ۔
زیلنڈیا سنکچری Zelandia Sanctuaryولنگنٹن کے قابل دید مقامات میں سے ہے پچھلے سال اس مقام کی سیر رہ گئی تھی ۔ اس سال ڈاکٹر احسن نے دن کا آغازہی اس مقام سے کروایا ۔
زیلنڈیا ولنگٹن شہر کے اندر 240 ایکڑز پر مشتمل ایک قدرتی جنگل ہے جو پانی کے دو ڈیموں کے گرد اگایا گیا ہے اس کے باہر خار دار تار لگا کر یہاں رہنے والی جنگلی حیاتیات کو محفوظ بنایا گیاہے ۔ اس جنگل میں سیر کے دوران آپ کو خود ہی یہاں کے رہنے والے باسیوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔ یہ دنیا کی چند بہترین سینچریز میں سے ایک ہے ۔ یہ جنگل اکثر جگہوں پر اتنا گھنا ہے کہ سورج کی شعائیں بھی زمین تک نہیں پہنچ پاتیں ۔
جنگل کے درختوں اور پودوں کے بیچوں بیچ سیاحوں کی آمدورفت کے لئے بہترین اور محفوظ فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں ۔ جہاں بوڑھے گورے اور گوریاں ہاتھوں میں دوبینیں پکڑے طوطے اور چڑیاں ڈھونڈھتے اور لبوں پر انگلی رکھے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ۔
ہم دونوں ان کی خشمگیں نگاہوں کی پروا کئے بغیر ان کے درمیان سے گزرتے پاکستان کے حالات ، امریکہ کے انتخابات اور اسرائیل کی سفاکی پر بات کرتے رہے ۔ پرندے ڈھونڈنے کی بجائے تحریک کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا حل تلاش کرتے رہے ۔
نتیجہ صاف تھا پورے تین گھنٹوں کی بھاگ ودوڑ کے بعد ہم تین چڑیاں دو مینا اور ایک کالے رنگ کا طوطا دیکھنے میں کامیاب ہو سکے ۔ اور ہم اس پر بھی بہت خوش تھے ۔
یہیں ہماری ملاقات تسمانیہ کے ایک گورے ڈاکٹر سے ہوئی جو اکیلا ہی دوربین ہاتھ میں تھامے ادھر ادھر گھوم رہا تھا وہ بار بار ہم ٹکراتارہا اور ہر بار ہم اس اپنی تصویر کھینچنے کی فرمائش کرتے ہے ۔ آخری بار جب ڈیم کے اوپر بنے جھولنے والے پل پر اس سے آمنا سامنا ہوا تو ہم نے اس پوچھ ہی لیا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے ۔ تعارف ہوا تو پھر بات بہت دور چلی گئی اس خوش مزاج بابے نے بتایاکہ وہ نیوی ایک کا ریٹائرڈ ڈاکٹر ہے جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انٹارٹیکا میں گزاراتھا ۔ اور اس کی داستان بہت
دلچسپ اور معلومات افزا تھی ۔
واپسی پر اس وقت تو ہماری مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ہم نے سڑک کے کنارے چھپکلی کی نسل کا سانڈے سے ملتا جلتا اور اسی کے سائز کا ایک انتہائی سست سا بد صورت جانور دیکھا ۔
یہ ٹیواٹارہ Tuatara تھا ۔ جس کے بارے میں اہل نیوزی لینڈ کا دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق جراسک دور Mesozoic Era سے تعلق رکھنے والے ڈائنوساروں سے ہے ۔ اور اس کی نسل 250 ملین سال پرانی ہے ۔
جب ہم ناشتے کے بعد ڈاکٹر فاروق کے گھر سے زیلنڈرا جانے کے لئے نکلے تھے تو ڈاکٹر ارم نے ہمیں ٹیوٹارا پر معلومات سے بھرپور ایک لیکچر دیاتھا اور تاکید کی تھی اور کچھ دیکھیں نہ دیکھیں ٹیوٹارا کا دیدار ضرور کرنا ہے ۔
پورا زیلنڈرا دیکھنے کے لئے تو کئی دن چاہئیں تین گھنٹے کے بعد جب ہماری برداشت جواب دے گئی تو ہم اپنی بساط بھر یاترا کے بعد یہاں کے خوبصورت کیفے میں آ بیٹھے گرم کافی کا کپ پینے اور گاجر سے بنے کیک کا ایک ایک ٹکڑا کھانے کے بعد ہماری اگلی منزل ویلنگٹن کا قبرستان تھا ۔
ڈاکٹر احسن کا کہنا تھا کہ یہ قبرستان بڑی خوبصورت وادی میں قائم ہے اور وہ اکثر یہاں سیر نما تکیہ نفس کرنے آتے ہیں اور انہوں نے غلط نہیں کہا تھا ۔
یہ قبرستان واقعی اتنی خوبصورت صاف ستھری اور پرسکون جگہ پر واقع ہے کہ اس شہر خموشاں کے باسیوں پر رشک آنے لگتا ہے ۔
اونچی پہاڑی چوٹیوں کے بیچوں بیچ بنی دور تک پھیلی سر سبز گھاس کے میدان اور اونچے لمبے گھنے درختوں سے سجی اس دلکش وادی میں حد نگاہ تک قبروں کے کتبے نصب تھے ۔ گوروں کے قبرستان میں قبریں نہیں ہوتیں بلکہ انواع واقسام کے خوبصورت کتبے ہی ان کی قبروں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
ان قبروں کے بیچ خم کھاتے صاف ستھرے کھلے راستے ، قبروں کے درمیان ہر طرف اگے جنگلی پھولوں کے تختے اونچے اونچے گھنے درختوں پر چہچہاتے پرندوں کے نغمے عجیب ہی بہار پیش کر رہے تھے ۔
اس قبرستان کا ایک گوشہ مسلمانوں کے لئے بھی مخصوص ہے ۔ لیکن اس وقت بڑا دکھ ہوا جب یہاں بھی شیعہ سنی کی تفریق دیکھی ایک طرف سنی مسلم کا بورڈ لگا تھا تو اس کے بازو میں شعیہ مسلم کی تختی لگی دیکھی ۔
ہم مرنے والوں کو بھی فرقوں میں بانٹنے سے باز نہیں آتے ۔
قبرستان میں کچھ وقت گزارنے اور فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم ولنگٹن کے مکارا بیچ پر آگئے ۔
سنگلاخ پہاڑیوں اور پتھریلے ساحل پر مشتمل اس علاقے میں بیچ والی بس ایک ہی خوبی ہے کہ آپ یہاں پتھروں پر کھڑے ہوکر خلیج تسمان Tasman Sea کا نظاراکر سکتے ہیں نہ اس ٹھنڈے یخ پانی میں نہا سکتے ہیں اور نہ یہاں ریت ہے جس سے آپ گھروندے بنا سکیں ۔
اس بیچ کو دیکھ کر جبرالٹر کا سینڈی بیچ Sandy Beach یاد آگیا ۔
دن کب ڈھلا اور کب شام ہوئی پتہ ہی نہ چلا ۔ اور اقبال ڈے کی تقریب کا وقت آگیا ۔
ولنگٹن شہر کی پشت پر موجود اونچی پہاڑی کی چوٹی پر قائم وکٹوریہ یونیورسٹی کے ایک ہال میں اس تقریب کا انعقاد تھا ۔
ولنگٹن کے پاکستانیوں کی اس تقریب میں شرکت قابل داد تھی اس دن ولنگٹن کا شائید ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو جو یہاں موجود نہیں تھا ۔
امسال یوم اقبال کی خاص بات پاکستان سے دو خصوصی مہمانوں کی شرکت تھی ۔
فاطمہ فیاض لمس LUMS یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ ایران سے فارسی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔ ہیں تو پروفیسر لیکن دیکھنے میں
گریڈ گیارہ بارہ کی طالبہ دِکھتی ہیں ۔ جب یہی سوال ان سے پوچھا کہ آپ تو بہت کم عمر نظر آتی ہیں اور اتنی کم عمری میں اتنا علم وفضل !
تو انہوں نے اقبال کا یہ مصرہ سنا کر لا جواب کر دیا
کہ یہ اقبال کی خواہش کی تکمیل ہے جو انہوں نے اللّہ سے کی تھی کہ
“ جوانوں کو پیروں کا استاد کر “
دوسرے مہمان خصوصی وجہیہ سمارٹ نوجوان اور خوبصورت شخصیت کے مالک مشہور و معروف ماہر اقبالیات خرم الٰہی تھے جن کے بارے میں ہماری بہت محترم طاہرے گونیش کا کہنا ہے کہ
“خرم الٰہی اقبال، رومی، نطشے ، سپنوزا اور دیگر فلاسفہ و صوفیاء پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ “
ان دونوں نے خوب رنگ جمایا اور انکی انتہائی فکر انگیز دلکش اور دلچسپ گفتگو نے یوم اقبال کا حق اداکر دیا ۔
عرصے بعد اقبال پر اتنی شاندار گفتگو سننے کو ملی ۔ خرم الٰہی پچھلے سال بھی یوم اقبال پر مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے لیکن ویزا نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے آن لائن خطاب کیا تھا ۔
اس سال ان کو دوبدو سننے کا موقعہ ملا جس کا لطف ہی نرالا تھا ۔
امسال اد تقریب کا موضوع گفتگو اقبال اور رومی کا تعلق رہا
ایران سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فہیم آفرین اسدی کی گفتگو بھی بہت فکرانگیز اور خوبصورت تھی
فارسی اتنی میٹھی زبان ہے کہ اہل ایران جب اپنے مخصوص لہجے میں فارسی بولتے ہیں تو جی کرتا ہے سنتے رہیں ۔ تہران یونیورسٹی سے فارسی میں پی ایچ ڈی کرنے والی فاطمہ فیاض کا لہجہ بھی بلکل اہل ایران جیسا ہے اور وہ تو اپنی صبیح رنگت گھنگریالے بالوں کے ساتھ فارسی بولتے ہوئے پاکستانی نہیں ایرانی ہی لگتی ہیں ۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی نیوزی لینڈ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل تھے جو راولپنڈی میڈیکل کالج کے گریجویٹ ہیں ۔
ولینگٹن کی یوم اقبال کی تقریب ایک بہت شاندار روائیت ہے جو نہ صرف نیوزی لینڈ میں رہنے والے پاکستانیوں کو آپس میں جوڑتی ہے بلکہ وہاں کے پاکستانیوں اور وہاں رہنے والی انکی نئی جوان نسل کو اقبال سے روشناس کرانے کا بہت مؤثر ذریعہ ہے ۔ جس کی پیروی دنیا کے دوسرے ملکوں میں رہنے والے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی کرنی چاہیئے ۔