پرویز خٹک کا شمار خیبرپختونخوا کے سنجیدہ اور تجربہ کار سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی میں تھے تو بے نظیر بھٹو کے خاص بندے اورآفتاب احمد خان شیرپائو جیسے زیرک سیاستدان کے دست راست تھے۔پرویز مشرف کے دور میں ضلع نوشہرہ کے ناظم منتخب ہوئے اور کامیاب ناظمین میں شمار ہوتے تھے ۔ آفتاب شیرپائو نے اپنی جماعت بنائی تو وہ ان کے صوبائی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کام کررہے تھے اور اچھا کام کررہے تھے۔ پیپلز پارٹی میں واپس آئے اور حیدر ہوتی کی کابینہ میں صوبائی وزیر بنے تو بھی کسی تنازع میں ان کا نام نہیں آیا۔
گزشتہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ن) میں ان کے جانے کے انتظامات مکمل ہوگئے تھے لیکن عمران خان ، جہانگیرترین اور ’’اُن لوگوں‘‘ نے ان کو تحریک انصاف کا راستہ دکھادیا۔ انتخابات کے بعد ان کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزد کرنے کی خبریں آئیں تو میں نے ان کی نامزدگی کے خلاف لکھنا اور بولنا شروع کردیا۔ وہ مجھے فون کرتے رہے لیکن میں بات کرنے سے گریز کرتا رہا۔ ایک روز شوکت یوسفزئی نے اپنے نمبرسے کال ملاکر فوراً انہیں تھمادیا۔ مجھے مجبوراً بات کرنی پڑی۔ پرویزخٹک صاحب نے کہا کہ خان صاحب نے میری نامزدگی کا فیصلہ کرلیا ہے اور کوئی میرے خلاف نہیں بولتا لیکن صرف تم بول رہے ہو۔ آج خان صاحب نے بھی مجھے آپ کے بولنے کا طعنہ دیا ۔ میں نے عرض کیا کہ خٹک صاحب میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ آپ کے ساتھ سالوں سے عزت و احترام کا تعلق ہے لیکن میرا موقف آپ کی دشمنی یا اسد قیصر کی دوستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولی ہے ۔ میرے نزدیک آپ کی شخصیت پی ٹی آئی کے کلچر کے ساتھ میچ نہیں کرتی ۔ ہر پارٹی اور لیڈر کو اس کے دعوے میں تولا جاتا ہے اور پی ٹی آئی جو معیارات بیان کررہی ہے ، اس پر آپ پورا نہیں اترتے ۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ نئی قیادت لانا چاہتے ہیں اور آپ اچھے انسان ہوں گے لیکن نئی قیادت نہیں ہیں ۔ دوسرا پی ٹی آئی کے ورکرز نے پارٹی انتخابات میں آپ کے گروپ کو ہرا کر اسد قیصر کو صوبائی صدر منتخب کیا ہے ۔ یوں بھی ان کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ پندرہ بیس سال کا تعلق ہے اور آپ کا چند ماہ کا۔
بہر حال خان صاحب نے کب ہم جیسوں کی سننی ہوتی ہے ۔ چنانچہ انہوں نے پرویز خٹک صاحب کو وزیراعلیٰ بنا دیا ۔ اسد قیصر صاحب اور ان کے قریبی ساتھی بہت دکھی تھے لیکن خان صاحب کی خاطر خاموش ہوگئے ۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ حکومتی عہدہ یاا سپیکر کا عہدہ لینے کی بجائے پارٹی قیادت ہی اپنے پاس رکھیں اور پارٹی کے ذریعے حکومت پر چیک اور رہنمائی کی کوشش کریں لیکن خان صاحب نے ان کوا سپیکر بنا دیا۔ پارٹی کی صدارت کیلئےپہلے مولانا فضل الرحمان کے سابق دست راست اور امریکہ میں کروڑوں کے کاروبار کے مالک اعظم سواتی کو صوبائی صدر نامزد کیا اور پھر جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کا ساتھ دینے والے نثار خان لالہ کے بیٹے کو صوبائی صدر نامزد کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کو پارٹی کے نظریاتی کارکنوں نے قبول نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ پختونخوا میں جہاں حکومت کی رہنمائی اور نگرانی کے لئے پارٹی موجود نہیں رہی ،وہاں تنظیمی سطح پر پارٹی بھی انتشار کا شکار ہوگئی ۔
وہاں ایک گروپ وزیراعلیٰ کا رہا جسے شروع میں جہانگیر ترین کی سرپرستی حاصل رہی ۔ دوسرا گروپ اسد قیصر کا تھا۔ تیسرا گروپ سیف اللہ نیازی کی قیادت میں ضیاء اللہ آفریدی ، علی امین گنڈا پور، مراد سعید اور ضیاء اللہ آفریدی وغیرہ کا تھا۔ اسی طرح شروع میں عمران خان کے ذاتی خدمت گزاروں کا ایک اور گروپ عاطف خان کی قیادت میں سرگرم عمل رہا ۔ پھر ایک گروپ ناراض ارکان یعنی جاوید نسیم وغیرہ کا بن گیا۔ ضیاء اللہ آفریدی کو وزارت سے ہٹا کر گرفتار کرلیا گیا تو ان کے گروپ کے لوگوں نے وفاداری بدل کر جہانگیر ترین کے ہاں پناہ لے لی ۔ ان گروپوں میں بعض لوگ ایک سے دوسرے گروپ میں آتے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں وہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکا ررہے اور صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے عمران خان صاحب نئے صوبائی صدر کا تقرر نہیں کرسکےاور یوں پارٹی صوبائی صدر کے بغیر چل رہی ہے ۔
دوسری طرف پرویز خٹک ایک دن کے لئے بھی حقیقی معنوں میں وزیراعلیٰ نہیں بن سکے ۔ چیف سیکرٹری ، آئی جی پی اور اعلیٰ بیوروکریٹس کی تقرری بنی گالہ سے ہوئی ہے ۔ وہ یہاں رپورٹ کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ کے احکاما ت کو خاص اہمیت نہیں دیتے ۔ اعلیٰ بیوروکریٹس کو وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی میں اسلام آباد طلب کیا جاتا ہے ۔خان صاحب، جہانگیر ترین اوراسد عمر ان سے بریفنگ لیتے اور ہدایات دیتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہاں وزیراعلیٰ کے خلاف منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے ۔ آپ کو ہر وقت پختونخوا کابینہ کے پانچ چھ وزراء بنی گالہ یا کوہسار مارکیٹ میں منڈلاتے نظر آئیں گے ۔ خود وزیراعلیٰ بھی ہفتہ میں دودن اسلام آباد ہوتے ہیں تاکہ خان صاحب اور ان کے خاص مصاحبین کے ساتھ مشاورت کرسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت میں اسلام آباد کا پختونخوا ہائوس کھچا کھچ بھرا رہتا ہے کیونکہ اکثر وزراء اور ایم پی ایز نے یہاں ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں ۔
کابینہ میں ایسے وزیر بھی بیٹھے ہیں کہ پرویز خٹک کے ساتھ منہ پر گالم گلوچ کرچکے ہیں لیکن چونکہ بنی گالہ سے ان کا رشتہ مضبوط ہے ، اس لئے وہ ان کو کابینہ سے الگ نہیں کرسکتے ۔ جاوید نسیم اور قربان علی خان وغیرہ ایم پی ایز نے بغاوت کردی ۔ انہوں نے وزیراعلیٰ اور کئی وزراء پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے ۔ وہ میڈیا پر بھی آئے لیکن وہ آج بھی ایم پی ایز ہیں اورپارٹی کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ ان کے خلاف خان صاحب کارروائی کرنا نہیں چاہتے اور وزیراعلیٰ کر نہیں سکتے ۔ اب جو نیا باغی گروپ بن گیا ہے تو نہ تو ان کی شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے اور نہ انہیں پارٹی سے نکالاجاتا ہے ۔
اسی طرح صوبے میں جو احتساب کمشنر مقرر کیا گیا ، وہ کرکٹ کے دنوں سے خان صاحب کے دوست تھے ۔ خان صاحب ہی سے رابطے میں رہتے تھے ۔ انہوں نے ہی ان سے ضیاء اللہ آفریدی کو گرفتار کروایا اور پھر ان کے رویے ہی کی وجہ سے وہ عہدہ چھوڑ گئے ۔ پیڈو کے محکمے میں جو گھپلے ہوئے ، اس معاملے میں بھی وزیراعلیٰ اس لئے کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ایم ڈی اسد عمر صاحب کے مقرر کردہ تھے اور وزیرخان صاحب کے مقربین میں شامل ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ صوبے سے متعلق کوئی بھی اہم فیصلہ صوبائی کابینہ، صوبائی اسمبلی یا پارٹی کی صوبائی تنظیم نہیں کرتی ۔ خان صاحب وزیراعلیٰ کو طلب کرلیتے ہیں ۔ پھر ایک طرف جہانگیر ترین اور دوسری طرف اسد عمر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہاں فیصلے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صوبائی کابینہ کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔
پرویز خٹک اور کے پی کے رہنمائوں کی اکثریت دھرنوں کی شدید مخالف تھی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی سب سے زیادہ دھرنوں کی وجہ سے متاثر ہوئی لیکن وزیراعلیٰ اور وزراء کو دھرنوں میںکنٹینر پر کھڑے ہوکر ناچ گانے پر مجبور کردیا گیا۔ اسی وقت سی پیک سے متعلق اہم فیصلے ہوئے لیکن تب خان صاحب کو اس کی فکر تھی اور نہ پرویز خٹک کو فرصت ۔ یہ لوگ دھرنوں میں مصروف تھے اور وفاقی حکومت نے جو کرنا تھا ، وہ کرلیا جس کا صوبے کو بے انتہانقصان ہوا۔
بنی گالہ سے ڈکٹیشن کی تازہ ترین مثال گزشتہ روز پیش کئے گئے نئے ناقابل عمل ایجنڈے کی ہے ۔ وزیراعلیٰ کو صبح بنی گالہ طلب کیا گیا۔ نہ صوبائی تنظیم ساتھ تھی اور نہ کابینہ ۔ ایک طرف اسد عمر صاحب بیٹھے اور دوسری طرف جہانگیر ترین ۔ سامنے خان صاحب مانیٹر کا رول ادا کررہے تھے۔ صوبے کے لئے ایسا ایجنڈا بنایا گیا جس میں ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس دل خوش کن ایجنڈے کو اگلے روز کروڑوں روپے خرچ کرکے ملک کے تمام اخبارات میں صفحہ اول پر شائع کرادیا گیا اور پھر دو دن بعد کابینہ کا اجلاس بلایا گیا لیکن اس میں بھی اس کی منظوری نہیں لی گئی۔
اس تناظر میں اس وقت پختونخوا میں حکومت کے نام پر بدترین بدنظمی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کے چند گوئبلز رات کو ٹیلی وژن چینلز پر بیٹھ کر اس تکرار سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ باقی ملک میں یہ غلط تاثر عام کردیا گیا کہ جیسے واقعی پختونخوا میں کوئی تبدیلی آگئی ہے ۔ باقی پاکستان کو یہ علم نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ماضی کی کسی بھی حکومت سے بڑھ کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بجٹ خرچ کررہی ہے ۔ لیکن جھوٹ سے کب تک کام چلایا جاتا ۔ اب تین سال مکمل ہوئے تو حقائق سامنے آرہے ہیں ۔ اب گوئبلز کے جھوٹے دعوئوں سے مزید کام نہیں چل سکتا ۔ خود پی ٹی آئی کے قائدین بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ تبدیلی تو بہت آئی ہے لیکن مثبت نہیں بلکہ منفی ۔گویا تبدیلی گندی ہوگئی اور مکمل گندی ہوگئی۔ چنانچہ اب پرویز خٹک کو قربانی کا بکرا بنانے اور ناکامی کا ملبہ ان کے سرتھوپنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
پرویز خٹک صاحب کا تازہ بیان کہ میں مانتا ھوں تبدیلی نہی لا سکا۔۔۔۔ سلیم صافی کا خٹک صاحب سے حالیہ انٹرویو جس طرح لیا گیا اور اب سلیم صافی کی تحریری قے ۔۔۔۔ بہت کچھ سمجھ آریا ھے بھولے 🙂
صافی کا جیو سے تعلق اور خان صاحب سے ناپسندیدگی کا تعلق انکی تنقیص کوناقابل قبول بناتا ہے مگر پی ٹی آئی کو اس سے تحریک لے کر معاملات کو مزید بہتر کرنا چاہئے