ہوم << اہلِ سنت کی دوہری حکمتِ عملی اور داخلی انتشار - حامد کمال الدین

اہلِ سنت کی دوہری حکمتِ عملی اور داخلی انتشار - حامد کمال الدین

ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ اہل سنت طبقوں کے آپس میں چونچیں لڑانے کا وقت آ گیا!
مسئلہ بہت سادہ ہے البتہ جہتیں اسے دیکھنے کی ایک سے زیادہ ہیں؛ اور شاید یہی ایک وجہ ہے کہ کئی اچھے لوگ بھی کہیں ایک طرف کے بُغض فروشوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں تو کہیں دوسری طرف کے۔
جہتیں اس مسئلہ کی ایک سے زیادہ یوں ہیں کہ:
1۔ اہل سنت کے ہزارہا لوگوں کے قتل و غارت میں برس ہا برس ملوث رہ چکے ایک شخص یا ٹولے کے معاملے کو دیکھنے کا ایک پہلو وہ ہوتا ہے جہاں وہ ملتِ اسلام کے قلب – اھل السنۃ والجماعۃ – کے ایک بدترین حریف کے طور پر سرگرم رہا ہو۔ ظاہر ہے، اس پہلو سے وہ ایک گھناؤنے کردار ہی کے طور پر ذکر ہونے کے لائق ہوتا ہے۔ یہاں؛ تعجب ان حضرات پر ہے جو اُس منحرف خونیں ٹولے کے اِس گھناؤنے کردار کے خلاف تو کبھی سیخ پا نہیں دیکھے گئے، البتہ اُس کا ’مثبت کردار‘ نمایاں کرنے کو پیش پیش ہیں! "سلفیوں دیوبندیوں" کے خلاف بُغض - جس کی اپنی وجوہات چاہے کتنی بھی ہوں - اس یک چشمی نگاہ کے حق میں اگر ایک کافی شافی "جواز" مان لیا جائے تو بھی اس کی مضحکہ خیزی اپنی مثال آپ ہے: کیونکہ آل "الاسد" کا وہ بےرحم گنڈاسہ جسے ایران و حزب اللہ نے مل کر چلایا ہے اگر صرف شام کے "سلفیوں" پر برسا ہوتا تو چلیے ہم کہتے یہ خون نرا "ھدر" ہے اور کسی چیخ اور دُہائی کے لائق نہیں۔ مگر آل "الاسد" کا وہ کلہاڑا تو شام کے "اخوان" پر شاید "سلفیوں" سے بھی بڑھ کر برسا ہو۔ ویسے جس وقت کریڈٹ دینے کی بات ہوتی ہے اس وقت شام کی اس "بےمثال عوامی اپ" رائزنگ اور اس امید افزا "عرب سپرنگ" کو اچھا خاصا "اخوان" کے کھاتے میں ڈال بھی دیا جاتا ہے۔ مگر داد دیجیے اس کامیاب اور consistent کینے کی جو "سلفیوں کے بُغض" میں "اخوان" کا خون بھی بھول جانا ضروری جانتا ہے! نیز ایک "ڈکٹیٹر" کے حلیفوں کا سرحد پار سے آ آ کر وہاں کی عوامی مزاحمت کو بندوق کے زور سے کچلنا، اور ایک خالص فرقہ ورانہ محرک کے تحت اس ڈیڑھ عشرے پر محیط قتل و غارت اور بارود انگیزی کا سرگرم ترین حصہ بنا رہنا یکسر نظرانداز ہونے کے قابل سمجھتا اور اسے زبان پر لانے تک کو گناہ جانتا ہے۔ یعنی یکلخت کتنے جرم رفت گزشت: ایک شدید منحرف ٹولے کے ہاتھوں شام میں "اخوان" سمیت ہزاروں لوگوں کا خون ہونا۔ وہ بھی ایک بدنامِ زمانہ خونیں ڈکٹیٹر کے سرگرم ترین حلیف کے طور پر۔ پھر یہ حلیفی بھی محض سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونا یعنی فرقہ واریت تک معاف، جو یہ حضرات اپنے ملک میں کبھی کسی کو معاف نہیں کرتے!۔ اور فرقہ واریت بھی وہ جو زبانی کلامی نہیں بلکہ ایک کھلی جنگ اور ایک وحشی خونریزی تک جاتی ہے۔ پھر یہ خون ریزی اور دہشت گردی بھی وہ جو ایک لمبا رخت سفر باندھ کر اور خود آپ کے پاکستان سے "زینبیون" کی ریکروٹمنٹ کر کر، کسی دوسرے کے ملک میں گھس کر کی جاتی اور اس پر جنت کے بےتحاشا سرٹیکفیٹ بانٹے جاتے ہیں۔ اور اس سارے خونیں عمل سے عرب سپرنگ ایسے ’تازہ ہوا کے جھونکے‘ کا گلا گھونٹنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ سب درگزر!
غرض اس پہلو سے جہاں وہ ٹولہ اہل سنت کا خون کر رہا ہوتا ہے، ایک ظالم ستم گر کے طور پر ہی ذکر کیا جائے گا۔ اس کا انکار صرف ایک ناانصاف اور ایک بُغض بھرا شخص ہی کر سکتا ہے۔
2۔ البتہ ایک ایسا ظالم، خونیں، بدعتی ٹولہ بھی جس وقت کسی کافرِ اصلی – مانند صلیبی نصارىٰ اور صیہونی یہود – کے خلاف برسر پیکار ہو، اُس وقت کافر کے مقابلے پر اپنے اس ظالم خونیں بدعتی کی کچھ نہ کچھ طرف داری پھر بھی کر لی جاتی ہے۔ یہ حوصلہ دنیا میں صرف اہل سنت کو نصیب ہے، بلکہ اہل سنت میں سے بھی صرف اُن طبقوں کو جو اصولِ سنت سے صحیح صحیح واقف ہوں۔ کافر کے مقابلے پر یہ اپنے ایک ظالم اور بدعتی کے لگائے ہوئے زخم تک بھول کر اِس کی جیت کے متمنی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام کے اصل "سٹیک ہولڈر" یہی ہوتے ہیں، اگرچہ کتنے ہی بےبس کیوں نہ ہوں۔ اور پھر اس لیے بھی کہ معاملے کو دیکھنے کا اعتبار یہاں بدعتی بمقابلہ اہل سنت نہیں بلکہ بدعتی بمقابلہ اہل کفرہوتا ہے۔ جبکہ کفر کے ساتھ اپنی جنگ میں یہ – اصولِ اہل سنت سے واقف طبقے – اس قدر سچے ہوتے ہیں کہ کفر کے سرنگوں ہونے کی مصلحت کے مقابلے پر یہ اپنی کسی بڑی سے بڑی مصلحت کو بھی ترجیح نہیں دیتے۔ اسلام کے ساتھ ایک کمزور سے کمزور نسبت رکھنے والے ٹولے کو بھی یہ کافر کے مقابلے پر فتح مند ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلام کا وفادار اور کفر کا بدخواہ کوئی اہل سنت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا؛ اور یہ فی الواقع بہت ہی حوصلے کی بات ہے۔
اب اِس پہلو سے؛ جب ہمارے بہت سے مسلم داعی امریکہ و اسرائیل کے مقابلے پر اپنی طرفداری ایران یا حـزب اللہ وغیرہ کے ساتھ رکھتے ہیں، تو وہ بالکل ایک صحیح اصل پر ہوتے ہیں۔ مسئلہ کو دیکھنے کی یہ جہت اُس جہت سے متعارض نہیں جو اس سے پہلے ذکر ہوئی: ہر چیز اور ہر موقف کا اپنا ایک سیاق اور اپنا ایک موقع ہوتا ہے۔ سو وہ پہلی جہت اپنی جگہ درست ہو گی اور یہ دوسری جہت اپنی جگہ درست۔ یہ اس آدمی کے حق میں جو اس معاملہ کو ہر دو جہت سے دیکھنے اور دکھانے والا ہو۔ رہی وہ "یک چشمی نگاہ" جو معاملے کو صرف ایک ہی جہت سے دیکھ سکتی ہو، اور جس کا شروع میں ذکر ہوا، تو ظاہر ہے وہ یہاں ہماری مراد نہیں۔
3۔ معاملے کی اصولی جہتیں تو یہ دو ہی ہیں، جو اوپر بیان ہوئیں۔ البتہ واقعاتی لحاظ سے اس کی کچھ اور بھی جہتیں ہو سکتی ہیں۔ واقعاتی ہم نے اس لیے کہا کہ تجزیاتی حوالے سے اس پر بلاشبہ دو رائے ہو سکتی ہیں کہ ایران و امریکہ یا ایران و اسـرائیـل کی جنگ کے اصل محرکات کس قدر حقیقی ہیں اور کسی قدر غیر حقیقی، یا کہاں تک وہ ہمارے اسلامی سنی وجود کے حق میں فائدہ مند ہیں اور کہاں تک نقصان دہ۔ یہ محض تجزیاتی جہتیں ہیں۔ ہر دو رائے رکھنے والوں کو ان مسئلوں میں اپنے اپنے نکتہٴ نظر پر رہنے کا پورا حق ہے۔ میری نظر میں، ہر دو کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہی کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو جلی کٹی سنانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ آپس کی یہ زہر افشانی نہ کوئی اسلامی خُلُق ہے، اور نہ یہ کسی صحافتی آداب میں آتا ہے۔ ہماری اپنی - اہل سنت کی - شیرازہ بندی یہاں کی ہر ترجیح سے بڑی ترجیح رہنی چاہیے۔ یہ "جیالاپن" اور محلے کی ماسیوں کی لڑائی جو اس وقت سوشل میڈیا پر دیکھی جا رہی ہے ہماری اپنی - اہل سنت کی - شیرازہ بندی کو تار تار کر دینے والی چیز ہے۔ کیا کوئی ان بھڑاس نکالنے والوں کو جا کر کہہ سکتا ہے کہ آپ کا خود اپنے آپس میں یہ آگ لگانا ملک و ملت کی کوئی خدمت نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی وجود کو خاکستر کر دینے والی چیز ہے۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں یہ ماچسیں دیکھ کر مجھے تو وحشت ہوتی ہے۔ خدا را کوئی ہوش!
________
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں!

Comments

Click here to post a comment