ہوم << کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان آنا چاہتے ہیں؟- ڈاکٹر فاروق عادل

کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان آنا چاہتے ہیں؟- ڈاکٹر فاروق عادل

ذاتی رجحانات کی بنیاد پر اس سوال کا جواب ہاں اور نہیں میں آسانی کے ساتھ دیا جا سکتا ہے لیکن سنجیدہ جواب کے لیے کسی قدر گہرائی میں جانے کی ضرورت ہوگی۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی شخصیت اور کردار کیا ہے اور ان پر اعتراضات کیا ہیں؟
ان کی سب سے بڑی خدمت یہ بتائی جاتی ہے کہ انھوں نے تقابل ادیان پر تخصص کیا اور انھوں نے مخالفین اسلام سے مناظرے کر کے اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔ ان کی دوسری خدمت یہ ہے کہ ان کی مساعی یا مناظرانہ صلاحیتوں سے متاثر ہو کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔
( مناظرے بازی کوئی مثبت عمل ہے یا نہیں سردست اس سوال کو نظر انداز کر دیا جائے)۔
اب آئیے، ان پر اعتراضات کی طرف۔ ان پر ایک بلکہ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ یزید کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں۔
ایک الزام تو نہایت دلچسپ ہے کہ وہ چونکہ انگریزی لباس پہنتے ہیں ، اس لیے ان کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ جن لوگوں کا لباس پہنتے ہیں، ان ہی کے نمائندے ہو سکتے ہیں۔
ایک دلچسپ اعتراض یہ بھی سامنے آیا ہے کہ انھیں یہودیوں نے لانچ کیا ہے، اس لیے ان پر اعتماد کیا جانا چاہیے اور نہ کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہیے۔
اب ہم ان کی خوبیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ کیا ایسے شخص کا پاکستان میں خیر مقدم کیا جانا چاہیے یا نہیں؟
جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ وہ اجنبی لباس پہنتے ہیں، یہ الزام اگرچہ دلچسپ ہے لیکن زیادہ وزن نہیں رکھتا۔ لباس انسان کا اختیاری معاملہ ہے۔ کوئی لباس اگر ستر کے اسلامی احکامات کے مطابق نہیں ہے تو وہ غیر اسلامی ہے لیکن اگر کوئی لباس ستر کا تقاضا پورا کرتا ہے تو اسے غیر اسلامی قرار دینا ممکن نہیں۔ دنیا بھر کے درجنوں مسلم معاشرے انھیں دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں، پینٹ کوٹ پہننے کے باوجود کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا لباس ستر کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ لباس کے معاملے میں کچھ لا پروا بھی ہیں۔ چوں کہ وہ کھلا ڈلا اور موٹا جھوٹا پہنتے ہیں اس لیے ٹپ ٹاپ سے عاری ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو ان کے پائنچے وغیرہ بھی برابر نہیں ہوتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مغربی لباس میں بھی سادگی کا پہلو موجود ہے۔ خیر، سادگی کا معاملہ اتنا اہم نہیں، ہر قسم کا کردار رکھنے والا شخص سادگی پسند ہو سکتا ہے۔
جہاں تک کسی کا ایجنٹ ہونے کا الزام ہے، یہ الزام اس وقت وزن نہیں پا سکتا جب تک اس کے شواہد میسر نہ آئیں۔ ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آ سکے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ الزام ہی مضحکہ خیز ہے اور ان کی پاکستان آمد کی خبروں کے ساتھ پہلی بار سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے۔
ان پر کوئی الزام وزن رکھتا ہے تو اس کا تعلق یزید سے ہے۔ اگر اس الزام میں کچھ وزن بھی ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے شخص کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو یزید کے بارے میں کوئی متنازع مؤقف رکھتا ہو؟ اس سوال کا جواب زیادہ آسان ہو سکتا ہے، اگر دو مزید سوالوں پر غور کر لیا جائے۔
1- کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک یزید کی وکالت کے لیے پاکستان آ رہے ہیں یا وہ کچھ دیگر موضوعات پر بات کریں گے؟
2- یزید کے بارے میں ذاکر نائیک جس قسم کا مؤقف رکھتے ہیں، کیا ایسا مؤقف رکھنے والا طبقہ پاکستان میں پہلے سے موجود ہے یا نہیں؟
جہاں تک یزید کے بارے میں نرم رویہ رکھنے والوں کا تعلق ہے، پاکستان میں یہ مکتبہ فکر موجود ہے اور اس سلسلے میں ذاکر نائیک کی پاکستان آمد پر اعتراض کرنے والوں نے کبھی اعترض نہیں کیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات بھی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ خیال یہی ہے کہ ان تعلقات کی بنیاد رواداری ہے۔ یہی رواداری کسی معاشرے کو طاقت فراہم کرتی ہے کیونکہ اختلاف کے ساتھ جینا ہی کسی مہذب معاشرے کی شناخت اور طاقت ہو سکتی ہے اور یہی خوبی اسے مکالمے کی میز پر لا کر اختلاف کو اتفاق میں بدل سکتی ہے۔
یہی اصول ہے جس کی بنیاد پر کسی شخص کی میزبانی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا یزید کے بارے میں عقیدہ جو بھی ہو، پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستان میں کسی اختلافی معاملے پر بات کرنے کے لیے نہیں آ رہے ہیں۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے کے لیے نہیں آ رہے تو ان کا مؤقف ان کے ساتھ، ان کا خیر مقدم کرنے میں کیا ہرج ہے؟ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا خیر مقدم کرنا مکالمے اور خیر سگالی کا دروازہ کھولے گا۔ اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں کہ مکالمہ اور خیر سگالی ہی میں تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔
اب ایک ہی جواب طلب سوال باقی رہ گیا ہے۔ وہ لوگ جو ان کی پاکستان آمد کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ کون ہیں؟ میرے خیال یہ مختلف قسموں کے لوگ ہیں۔
ان میں پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو انتہا درجے کے جذباتی اور بہت حد تک کم فہم ہیں یوں وہ سنگین قسم کی فرقہ پرستی کے دائرے میں شامل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی فرقہ پرستی میں بدتہذیبی بھی شامل ہو گئی ہے تو مناسب ہو گا۔ میرے خیال میں ایسے لوگوں کے شور شرابے پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ یہ لوگ معاشرے میں کچھ وزن رکھتے ہیں اور نہ کی بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی قسم کے لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ تمھارے منھ کو آ لگیں تو ان پر سلامتی بھیج کر اپنی راہ بدل لی جائے۔
مخالفت کرنے والے کچھ لوگ ان فرقہ پرستوں کے زیر اثر ہیں جنھیں دلیل سے سمجھانا ممکن ہے اور کچھ لوگ بھیڑ چال میں ایسا کرتے ہیں۔ ایسے دوستوں کی خدمت میں ایک ہی گزارش ہے کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کا خیر مقدم مسجد نبوی میں کر سکتے ہیں اور انھیں وہاں عبادت کی اجازت بھی دے سکتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب تو الحمدللہ مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کے خیر مقدم میں کیا ہرج ہو سکتا ہے؟

Comments

Click here to post a comment