امریکا میں 1783ء میں انقلاب آیا، یہ انقلاب سول وار کہلاتا ہے، انقلاب کے بعد برطانوی راج ختم ہو گیا اور امریکا یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا بن گیا، یہ اخلاقی لحاظ سے امریکا کا خوفناک ترین دور تھا، ملک کی 13 ریاستوں میں لاشیں پڑی تھیں، روزگار کے ذرایع ختم ہو چکے تھے، بیماریاں عام تھیںاور اوپر سے عوام بے راہ روی کا شکار ہو چکے تھے لیکن ملک کا سب سنگین مسئلہ شراب نوشی تھا،معاشرہ شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہوگیا تھا، امریکی شہری اوسطاً زیادہ شراب پینے لگے، یہ عادت معاشرتی بگاڑ میں تبدیل ہوئی اور ملک میں زنا بالجبر، چوری، ڈکیتی، ڈاکہ زنی اور رشوت ستانی میں اضافہ ہو گیا، خاندانی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، دنگے فساد بھی شروع ہو گئے، لوگ اس دور میں اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ شراب میں ضایع کر دیتے تھے۔
یہ حالات سو سال تک جاری رہے یہاں تک کہ ریاست کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہو گئی، 1913ء میں وڈرو ولسن امریکا کے صدر بنے، یہ شراب کے خلاف تھے چنانچہ انھوں نے 16 جنوری 1920ء کو امریکی آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی اور پورے ملک میں شراب کی تیاری، خرید و فروخت اور استعمال پر پابندی لگا دی، ادویات میں بھی اعشاریہ پانچ فیصد سے زائد الکوحل پر پابندی لگ گئی، امریکی قانون سازوں نے اس فیصلے کو ’’نوبل ایکسپیریمنٹ‘‘ یا نیک تجربے کا نام دیا، یہ پابندی خوش آیند تھی، امریکا کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا، جرائم میں بھی کمی ہو گئی اور خاندانی زندگی بھی بحال ہو گئی لیکن یہ سکھ بہت جلد عارضی ثابت ہوا، پابندی کے دو سال بعد ایک نئی صورتحال سامنے آئی، ملک میں شراب کی اسمگلنگ اور غیر قانونی فروخت کا دھندہ شروع ہو گیا، پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے انڈرورلڈ بن گئی۔
یہ انڈر ورلڈ گینگز میں بدلی اور گینگز مافیاز میں تبدیل ہو گئے، مافیاز نے کیوبا، کینیڈا، کولمبیا اور برازیل میں شراب کی بھٹیاں لگائیں اور شراب امریکا میں دھڑا دھڑ اسمگل ہونے لگے، امریکی نیوی نے روکا تو مافیا نے نیول افسروں کو خرید لیا، پولیس نے چھاپے مارے تو پولیس آفیسرز کی منتھلیاں لگ گئیں، کسٹم ڈیپارٹمنٹ آگے بڑھا تو انھیں بھی خرید لیا گیا، جو اہلکار بکنے کے لیے تیار نہ ہوئے انھیں گولی ماردی گئی یا پھر بم سے اڑا دیا گیا، مافیا کسٹم، نیوی اور پولیس میں اپنے لوگ بھی بھرتی کرانے لگا، یہ لوگ آہستہ آہستہ اتنے مضبوط ہو گئے کہ یہ پولیس چیفس تک تبدیل کرا دیتے تھے، یہ ریاستوں کی اسمبلیوں کا حصہ بھی بن گئے اور یہ کانگریس اور وائیٹ ہاؤس تک بھی پہنچ گئے۔
مافیاز نے امریکا میں ایک نیا اور خوفناک کلچر بھی متعارف کرا دیا، یہ کلچر ’’بک جاؤ یا مر جاؤ‘‘ تھا، انسان کو جان پیاری ہوتی ہے چنانچہ امریکا کی زیادہ تر بیوروکریسی اور سیاستدان مافیا کے ہاتھوں میں آگئے، یہ لوگ زیادہ منافع کمانے کے لیے کچی شراب بھی بیچنے لگے، لوگ یہ شراب پی کر مر جاتے تھے یا پھر بیمار ہو جاتے تھے یوں صحت کا سرکاری بجٹ بھی بڑھ گیا، پابندی کی وجہ سے شراب کی قیمت دس گناہ زیادہ تھی، لوگ افورڈ نہیں کر پاتے تھے چنانچہ یہ چوریاں کرتے تھے یا پھر دوسرے نشوں کی طرف چلے جاتے تھے، وہ نشے شراب کے مقابلے میں سو گنا خطرناک تھے، امریکا میں چرس، گانجا، مارفین، ہیروئن اور افیون اسی دور میں متعارف ہوئیں، ہیروئن برطانوی سائنس دان چارلس روملے ایلڈر نے 1874ء میں ایجاد کی تھی لیکن23 سال بعد ایک جرمن سائنس دانFelix Hoffmann نے اسے مزید خوفناک بنا دیا، یہ شروع میں مارفین کا متبادل تھی لیکن یہ 1925ء میں ڈرگ کے طور پراستعمال ہونے لگی، حکومت پابندی سے پہلے انڈسٹری سے اربوں ڈالر ٹیکس لیتی تھی۔
یہ ٹیکس بھی صفر ہو گیا، مافیاز نے شراب کی لین دین کے لیے اسلحہ اور خواتین کی اسمگلنگ بھی شروع کر دی یوں امریکا میں طوائفوں اور ہتھیاروں کی منڈیاں بن گئیں، امریکا 1929ء میں بدترین معاشی بحران کا شکار ہوا، یہ بحران ’’دی گریٹ ڈیپریشن‘‘ کہلاتا ہے، اس بحران کا شروع میں شراب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جب مالیاتی بحران کے شکار لوگوں نے ڈیپریشن میں گھر، زیورات اور مال مویشی بیچ کر شراب پینی شروع کر دی تو امریکا تقریباً خاتمے کے دروازے پر پہنچ گیا، حکومت صورتحال کی سنگینی سے آگاہ تھی،یہ اپنا فیصلہ واپس لینا چاہتی تھی لیکن یہ تجزیہ کاروں، پادریوں اور سول سوسائٹی سے ڈرتی تھی، یہ خوف 1933ء تک جاری رہا یہاں تک کہ فرینکلن ڈی روز ویلٹ امریکا کے صدر بن گئے، وہ جرات مند انسان تھے، وہ مخالفت سے نہیں گھبراتے تھے لہٰذا انھوں نے پانچ دسمبر 1933ء کو آئین میں 21 ویں ترمیم کی اور امریکا میں شراب سے پابندی اٹھا لی۔
حکومت نے پابندی اٹھانے کے ساتھ ہی شرابیوں کے لیے قوانین سخت کر دیے، نشے میں ڈرائیونگ کو ناقابل معافی جرم بنا دیا گیا، کام کے دوران شراب نوشی، دفتری اور سرکاری امور کے دوران نشہ اور نشے کے دوران فیصلوں پر پابندی لگا دی، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی امریکا میں شرابیوں پر سیاست، پولیس، فوج اور سول ایوی ایشن کے دروازے بند ہیں، سیاسی جماعتیں شرابی کو ٹکٹ اور ووٹر ووٹ نہیں دیتے، امریکا کے پچھلے دس صدر ’’نان الکوحلک‘‘ تھے، وائیٹ ہاؤس میں صدر، نائب صدر، کابینہ کے ارکان، صدارتی عملے اور مہمانوں کو شراب پیش نہیں کی جاتی، امریکا کسی سرکاری مہمان کو سرکاری رقم سے شراب فراہم نہیں کرتا، امریکا کا کوئی استاد شراب پی کر کلاس میں نہیں جا سکتا، کوئی جج نشے میں فیصلہ نہیں سنا سکتا، کوئی بینکر چیک کلیئر نہیں کر سکتا اور کوئی سیکیورٹی اہلکار سرکاری اسلحے کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور اگر کوئی یہ غلطی کر بیٹھے تو وہ عہدے سے بھی جاتا ہے، نوکری سے بھی فارغ ہوتا ہے اور اس کا ٹرائل بھی شروع ہو جاتا ہے، امریکا کے لوگ جانتے ہیں ہم میں سے جو شخص ترقی کی منازل طے کرنا چاہتا ہے اسے شراب، سگریٹ، زنا، جھوٹ اور رشوت چھوڑنی ہو گی، اسے ’’مسٹر کلین‘‘ ہونا پڑے گا اور وہ اگر دوران ذمے داری کوئی غلطی کر بیٹھے گا تو وہ عبرت کی نشانی بن جائے گا، خواہ وہ صدر نکسن جیسا جینئس ہی کیوں نہ ہو یہاں پر امریکا کی بات ختم ہوگئی، ہم اب پاکستان کی طرف آتے ہیں۔
پاکستان میں اسلام بھی ہے، جمہوریت بھی اور مشرقی روایات بھی، ہم نے 1977ء میں شراب پر پابندی بھی لگا دی، میں اس پابندی کا حامی ہوں، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اسلامی معاشرہ اور شراب دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا پابندی کے باوجود اس ملک میں شراب نہیں ملتی؟ اگر ہاں تو پھر یہ کہاں سے آ رہی ہے؟ لا کون رہے ہیں، بیچ کون رہے ہیں اور پی کون رہے ہیں؟ اور کیا ملک کا کوئی شہری یہ گواہی دے سکتا ہے ہمارے مقتدر ترین ادارے اور مقتدر ترین شخصیات اس حرام سے محفوظ ہیں؟حقائق تو یہ ہیں ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں ۔
اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان شرابیوں نے پہنچایا، سکندر مرزا کی شراب نوشی نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگوا دیا تھا، یحییٰ خان کی شراب نوشی نے ملک توڑ دیا، بھٹو صاحب کے ’’خون تو نہیں پیتا‘‘ جیسے بیانات نے انھیں پھانسی پر چڑھا دیا اور جنرل پرویز مشرف کے مخمور ساتھیوں نے انھیں وہاں پہنچا دیا جہاں سے 60ہزار لوگوں کی لاشوں کی بو آ رہی ہے اور خود آج ان کی جائیدادیں ضبط ہو رہی ہیں، ہمارے شرابی پائلٹس ائیر پورٹوں پر پکڑے جاتے ہیں ، ہمارے جہازوں سے شراب کی بوتلیں نکلتی ہیں اور ہمارے نام نہاد ’’وی آئی پیز‘‘ جہاز کی سیڑھیوں سے نہیں اتر پاتے، آپ کسی دن اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بارے میں سروے کرا لیں، آپ سرکاری افسروں، ججوں، ڈاکٹروں، پروفیسروں اور سیاستدانوں کے ڈوپ ٹیسٹ کرا لیں مجھے یقین ہے آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے، یہ کیا ہے؟ یہ ہماری سماجی منافقت ہے۔
ہم حقائق جانتے ہیں لیکن ہم میں اعتراف کی ہمت نہیں، ہمارے ملک میں پابندی کا مطلب مہنگائی ہے، ہم معاشرے میں جس چیز کو مہنگا کرنا چاہتے ہیں ہم اس پر پابندی لگا دیتے ہیں،ہمارے ملک میں 1977 ء سے پہلے صرف شرابی تھے، ہم نے اب ان کے ساتھ ساتھ ملک میں لاکھوں ہیروئنچی، چرسی، افیونی اور بھنگی بھی پیدا کر دیے، ہم نے تالیاں بجوانے اور واہ واہ کروانے کے لیے اپنی نسلیں برباد کر دیں، ہمیں بہرحال اس منافقت سے نکلنا ہو گا، ہمیں فرینکلن روزویلٹ بننا ہو گا یا پھر کنگ سعود بن عبدالعزیز، ہمیں ملک کو دوبئی، ملائیشیا، ترکی اور مصر بنانا ہوگا یا پھر سعودی عرب، وہ سعودی عرب جہاں منشیات فروشوں کے سر اتار دیے جاتے ہیں اور نشئیوں کی چمڑیاں، ہمیں بہرحال حقائق کو فیس کرنا ہو گا اِدھر یا اُدھر، ہم بہرحال اس منافقت سے یہ معاشرہ چلا سکیں گے اور نہ ہی ملک۔
مافیاز نے جیسے ایک ھی ماٹو اپنایا تھا ( بِک جاؤ یا مرجاؤ ) ایسے ھی پاکستان میں بھی ایک ھی نعرہ ھونا چاھئیے ،
سیدھے ھو جاؤ یا مرجاؤ ،
عمده تحریر
بہت خوب جاوید چوہدری صاحب مزہ آیا کالم پڑھ کے