ہوم << سقوطِ حیدر آباد - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

سقوطِ حیدر آباد - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں میں اقتدار کی ایسی جنگ چھڑی کہ صرف بیس سال میں دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت سب سے زیادہ دولتمند سلطنت دنیا کی مضبوط ترین ریاست پانچ حصوں میں تقسیم ہوگئی ان میں سے ایک حیدرآباد دکن کی ریاست بھی تھی اس کا پہلا حکمران نظام الملک آصف جاہ تھاآصف جاہ حیدرآباد دکن میں سلطنت مغلیہ کا صوبیدار تھا جس نے مغلیہ سلطنت سے آزادی کا اعلان کرنے کے بعد آزاد ریاست حیدرآباد دکن قائم کی یہ ریاست 1724 ء سے 1798 ء تک آزاد رہی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757ء کی جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کو شکست دی اور اس وقت تک مرہٹوں کی سلطنت بھی کمزور ہوکر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو چکی تھی انگریزوں نے غدار اعظم میر جعفر کی کوششوں اور مدد سے ہندوستان کی ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا جسے تاریخ میں subsidiary alliance کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے تحت تمام ریاستوں کو برٹش انڈیا کی طفیلی ریاستیں بننے پر مجبور کر دیا گیایہ حکمرانی کرنے کا وہ شاطرانہ جال تھا جس میں پھنس کر ریاستیں اپنی آزادی سے محروم ہو گئیں ہر ریاست میں انگریز ریز یڈنٹ کے نام پر برٹش انڈیا کا افسر مقرر کر دیا جاتا جو چند دوسرے گوروں کے ساتھ ملکر ریاست پر حکمرانی کرتا اور یہ ریزیڈنٹ ہی ریاست کے سیاہ سفید کا مالک ہوتاان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ٹیپو سلطان تھا جو کسی طرح انگریزوں کی غلامی قبول کرنے پر تیار نہں تھارفتہ رفتہ یہ susidiary alliance ٹیپو سلطان کے خلاف اتحاد کی شکل اختیار کر گیا اب تقربیاً سارا ہی ہندوستان ٹیپو سلطان کے خلاف متحد ہو چکا تھا نظام الملک آصف جاہ دوئم نے 1798 ء میں اس اتحاد میں شمولیت اختیار کی یوں حیدرآباد دکن کی ریاست ٹیپو سلطان کے خلاف انگریزوں کی اتحادی بن گئی اور چار مئی 1799ء کو میسور کی چوتھی جنگ میں سلطان ٹیپو کی شکست میں اہم کردار ادا کیا

ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان میں کوئی ایسی طاقت نہ بچی تھی جو انگریزوں کے مقابل کھڑی ہوسکتی اور انگریز پورے ہندوستان کے بلا شرکت غیرے مالک بن گئے اب عملی طور پر حیدرآباد دکن ایسٹ انڈیا کمپنی کی طفیلی ریاست Princely state of British India بن گئی1901 میں یہ متحدہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ دولتمند ریاست تھی اور اس کا رقبہ دو لاکھ پندرہ ہزار تین سو انتالیس مربع کلو میٹر 215,339 تھا اس کی آبادی تقربیاً سولہ کروڑ اور آمدنی Rs.417,000,000 تھی یہاں اکیاسی فی صد ہندو اور تیرہ فی صد مسلمان آباد تھے اس کی سرکاری زبان اردو تھی

مشہور جریدے The Times نے اپنے 22 فروری 1937 ء کی کور سٹوری میں حیدرآباد کے آخری نظام عثمان جاہ کو دنیا کا سب سے زیادہ دولتمند شخص قرار دیا تقسیم ہند کے بعد مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں جبکہ ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل ہوئے۔ لیکن تقسیم کے فارمولے میں کمزوریوں کا نتیجہ ہے کہ آج تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ دراصل جو فارمولا انگریزوں نے بنایا تھا اس کے تحت مقامی نوابوں کی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔

کشمیر مسلم اکثریتی تھا، لیکن کیونکہ وہاں کا راجہ ہندو تھا اس لیے بھارت نے کشمیر پر اپنے قبضے کو جائز قرار دیا کیونکہ راجہ ہندوستان سے الحاق چاہتا ہےریاست جوناگڑھ کی اکثریت ہندو تھی لیکن حاکم مسلمان تھا اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتا تھا، لیکن پھر بھی بھارت نے اس پر قبضہ کرلیا کہ اکثریت ہندوؤں کی ہے، اس لیے یہ ریاست بھی وفاق بھارت کا حصہ بنا دی گئی۔ حیدرآباد کی ریاست نے ابھی کسی ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ہی نہ کیا تھا، اورگو مگو کی یہ کفیت تقریباً ایک سال تک قائم رہی لیکن نظام حیدرآباد کا رحجان پاکستان کی طرف تھاان کی قائد اعظم سے خط و کتابت جاری تھی کہ1948ء میں آج ہی کے دن یعنی 13 ستمبر کو بھارت نے حیدرآباد پر حملہ کردیاصرف اس بنیاد پر کہ بھارت کو خطرہ تھا کہ کہیں اس کے مسلمان حکمران پاکستان کے ساتھ مل جانے کا فیصلہ نہ کرلیں۔ اسے کہتے ہیں "چٹ بھی میری اور پٹ بھی" 13 ستمبر 1948ء کو علی الصبح "آپریشن پولو" کے نام سے حیدرآباد کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی اور شام پانچ بجے نظام حیدرآباد سے ہتھیار پھنکوائے گئے اور ریاست حیدرآباد کو بالجبر وفاق ہندوستان کا حصہ بنا دیا گیا۔

وہ مسلمان جو مسلم ہندو بھائی بھائی کے نعرے لگاکر تقسیم ہند کی مخالفت کر رہے تھے، منہ دیکھتے رہ گئے اور حیدرآباد، جو ہندوستان میں مسلمانوں کی شان تھا، پکے ہوئے پھل کی طرح ہندوؤں کی گود میں جاگرا۔
ریاست حیدرآباد پر قبضہ کے چند سال بعد اس کے تین ٹکڑے کردیے گئے تاکہ کسی بھی صورت میں مسلمان دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ کچھ حصہ آندھرا پردیش میں، کچھ ریاست بمبئی میں اور کچھ کرناٹک میں شامل کردیا گیا۔
یوں ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اور روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔