پاکستان کے سیکولر عناصر کی ایک بڑی اکثریت، مشروبِ ممنوعہ اور موج مستی سے بھرپور ایک ایسی بے مہار زندگی گذارنا چاہتی ہے جہاں کسی قسم کی کوئی اخلاقی یا قانونی پابندی نہ ہو۔ دینِ اسلام چونکہ حدود وقیود مقرر کرتا ہے اور اس کا تعزیری نظام بھی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اسلام سے خائف ہیں اور عناد رکھتے ہیں۔ مگر اپنے بغض کے اظہار کے لیے وہ ہمیشہ کوئی ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ بانیٔ پاکستان کی ہزاروں تقریروں میں صرف ایک تقریر کے تین فقروں کو بھی وہ ڈھال کے طور پر استعمال کرکے قائدِاعظم کو اپنا ہم خیال یعنی سیکولر ثابت کرنے کی بچگانہ کوشش کرتے ہیں۔
محمد علی جناحؒ ایک ایسے غیر معمولی انسان تھے جو جھوٹ اور منافقت سے بہت بلند تھے، وہ کبھی کوئی کام مقبول ہونے یا لوگوں کو خوش کرنے کے لیے نہیں کرتے تھے۔ وہ وہی کہتے جس کی صداقت پر یقین رکھتے تھے۔ یہی بات انھیں دوسرے لیڈروں سے ممتاز کرتی تھی۔ کوئی بھی سیکولر شخص کسی مذہبی community کے ساتھ اپنے آپ کو نتھی نہیں کرتا مگر جناح صاحب مسلمانوں کے حقوق کے لیے آخر دم تک ڈٹ کر کھڑے رہے۔ جب علامہ اقبالؒ انھیں لندن سے واپس آکر ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کرنے پر قائل کرتے رہے تو وہ یہ کہہ کر انکار کرسکتے تھے کہ وہ تو سیکولر ہیں اور وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان کے تمام باشندوں کے لیے یا صرف پسے ہوئے طبقے (Have nots) کے حقوق کے لیے کام کریں گے۔ مگر انھوں نے بڑے واضح اور جراتمندانہ انداز میں دینِ اسلام کے پیروکاروں کی قیادت کی اور اس طرح کی کہ انگریزوں اور ہندوؤں دونوں کو پچھاڑ دیا۔ سیکولرازم کے لیے ناپسندیدگی کاعالم یہ تھا کہ قائداعظم نے زندگی بھر کبھی سیکولرازم کا لفظ تک استعمال نہیں کیا۔
تحریکِ پاکستان کے دوران قائد کی موجودگی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں سیکڑوں بار منتظمین، ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ اگر جناح صاحب کو اعتراض ہوتا تو وہ یہ نعرے لگانے سے روک دیتے مگر وہ ایسے نعروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ہمارے لبرلز بڑی کمزور سی دلیل دیتے ہیں کہ قائداعظم چونکہ تھیوکریسی کے مخالف تھے لہٰذا وہ سیکولر تھے۔ ارے بھائی! تھیوکریسی اور انتہا پسندی کی اسلام میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اسلام تو توازن کا درس دیتا ہے۔ تھیوکریسی کی مخالفت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بانیٔ پاکستان چاہتے تھے کہ امورِمملکت میں اسلامی نظریۂ حیات کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ قائداعظم، لیاقت علی خان اور مسلم لیگ کی قیادت نے برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عہد کیا تھا۔
قائد کو تو مہلت نہ مل سکی مگر لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد منظور کراکے تکمیلِ عہد کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو تحریکِ پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ ہمارے سیکولر حضرات نے قائداعظم کی 11اگست 1947 کی تقریر میں سے سیاق وسباق کے بغیر تین فقرے اٹھا کر پروپیگنڈا شروع کردیا کہ قائدؒ ریاستی امور میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں چاہتے تھے۔ یہ فقرے کس پسِ منظر میں کہے گئے۔ قائداعظمؒ کے ذہن میں کیا تھا۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
برِّصغیر کی تقسیم کا اعلان ہونے کے فوراً بعد اگست سے پہلے ہی بنگال اور پنجاب میں فسادات شروع ہوگئے تھے۔ اپنے خوابوں کی جنت، پاکستان تک پہنچنے کے لیے لاکھوں مسلمان ہندوستان سے پاکستان کی جانب چل پڑے تھے۔ ان میں سے ہزاروں کو راستے میں شہید کردیا گیا، درندگی اور شیطانیت کے ان واقعات کی خبریں اِس طرف پہنچیں تو یہاں بھی ہندوؤں اور سکھوں پر حملے شروع ہوگئے۔ ان واقعات نے قائداعظم کو بہت افسردہ اور مضطرب کردیا تھا۔ مس فاطمہ جناح کے بقول ہندوستان میں مسلمانوں اور پاکستان میں غیر مسلموں کی جان ومال کے بارے میں قائد بے حد پریشان تھے اور اس کے ذکر سے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔
انھیں اس بات پر بجا طور پر بہت تشویش تھی کہ عدمِ تحفظ کے باعث ہندو، سکھ اور پارسی پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں۔ لہٰذا نئے ملک کے حکمران کی حیثیت سے وہ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ مذہبی بنیاد پر پھوٹنے والے فسادات کو روکا جائے، مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جائے اور پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو یہیں رہنے پر آمادہ کیا جائے اور اس کے لیے انھیں یقین دلایا جائے کہ انھیں یہاں پورا تحفظ ملے گا اور وہ نئے ملک میں کمتر حیثیت سے نہیں برابر کے شہریوں کی طرح رہیں گے۔ اُن کی تقریر وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔
اس تقریر میں قائداعظمؒ نے نئے ملک کے لیے اپنی ترجیحات کا ذکر کیا اور ان تمام برائیوں کے خاتمے پر زور دیا جن کے باعث بعد میں قومی ادارے برباد ہوئے۔ اُس وقت بھی قائدؒ نے سب سے پہلے امن وامان کی بحالی اور اس کے فوراً بعد رشوت خوری اور کرپشن کو زہر قرار دے کر اس کے خاتمے پر زور دیا اس کے بعد بلیک مارکیٹنگ کو ایک سنگین جرم قرار دیا۔ قائد نے اس تقریر میں اقرباء پروری (Nepotism) کو بھی لعنت قرار دیتے ہوئے اس سے اجتناب برتنے کی ہدایت کی اور اس کے بعد قائدؒ اقلیتوں کے خدشات دور کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس مسئلے کا بڑے مَنطقی انداز میں تجزیہ کیا اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر باہمی تعاون اور رواداری پر زور دیا۔
ہندو مسلم کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے برطانیہ میں کیتھولک اور پروٹسنٹ عیسائیوں کے خونی جھگڑوں کی مثال دی اور بتایا کہ وہاں مذہبی کشیدگی اب قصۂ ماضی بن چکی ہے۔ لہٰذا جس طرح برطانیہ کے شہری اب کیتھولک یا پروٹسنٹ نہیں، مساوی حقوق رکھنے والے صرف برطانوی شہری ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف اور صرف پاکستانی شہری بن جائیں گے۔ اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہانی اور reassurance کے لیے قائدؒ نے انھیں یقین دلایا کہ آپ اپنی اپنی عبادتگاہوں میں عبادت کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوں گے۔
اِس وقت چونکہ کشیدگی کی فضا ہے اس لیے ہندو مسلم کی تقسیم نمایاں ہے مگر یہ کشیدگی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی پھر آپ کی پہچان آپ کے عقیدے کی بنا پر نہیں بلکہ صرف پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ہوگی۔ نئے ملک کے حکمران پر اقلیتوں کے خدشات دور کرنے کے لیے ایسی یقین دہانی کرانا لازم تھا۔ اقلیتوں کو assurance دینا نئے گورنر جنرل کا اخلاقی، سیاسی اور مذہبی فرض تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اس تقریر کو بجا طور پر میثاقِ مدینہ کی اسپرٹ کے مطابق قراردیا۔ بانیٔ پاکستان ہمارے آج کے لبرل حضرات سے سو گنا زیادہ پروگریسو اور روشن خیال تھے، ہندوؤں کی ایلیٹ کلاس سے ان کی دوستیاں بھی تھیں اس کے باوجود اُن کے بارے میں قائد کے نظریات بہت واضح تھے ان کے اپنے الفاظ سن لیں۔
“Hindu society and philosophy are the most exclusive in the world. How can you put 100 million muslims together with 250 millions whose way of life is so different. Unity of india was a myth…. There is not one indian nation. the hindus and muslims belong to two different religions, philosophies, social customs and literaturs. They neither intermarry nor interdine together, in deed they belond to two different civilizations”.
11 اگست کے بعد 14 اگست بھی آیا جب قانون ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں پاکستان کی نئی قیادت کو مغل بادشاہ اکبر کی رواداری کی تقلید کا ’درس‘ دیا جس کے بعد قائداعظمؒ نے کہاکہ ’’اس رواداری کا آغاز مغلیہ دور سے نہیں آج سے تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا جب ہمارے نبیﷺ نے زبانی نہیں عملی طور پر مفتوح یہودیوں اور عیسائیوں سے بے پناہ رواداری اور ان کے مذہب کے لیے احترام کا رویہ اپنایا، ہمیں انھی اصولوں کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ قائدؒ احساسِ کمتری سے بہت بلند تھے اس لیے وہ اپنے دین اور اپنی مسلم اقدار پر فخر کرتے تھے اورنئے ملک کا نظام اسلام کے سماجی انصاف کے اصولوں پر قائم کرنے کے عزم کا برملا اظہار کرتے تھے۔
اسلام، ریاستی امور سے غیر متعلق ہوگا اور نئے ملک کے حکمران اسلامی نظریّۂ حیات سے راہنمائی نہیں لیں گے… ایسا نہ قائداعظمؒ سوچ سکتے تھے اور نہ ہی پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے دوسرے راہنما۔ قائدؒ کے دستِ راست اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل لیاقت علی خان نے اسی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا ’’پاکستان ایک جدید جمہوری ملک ہوگا جس کے امور اﷲ تعالی (Who is the ultimate source of Authority and power) کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر چلائے جائیں گے‘‘۔بانیٔ پاکستان نے پورے ہندوستان میں سے اگر کسی کو اپنا گائیڈ کہا اور مانا ہے تو وہ صرف علامہ اقبالؒ تھے ۔ اقبالؒ ہی جناحؒ صاحب کے نظریاتی گائیڈ اور راہنما تھے اور اقبالؒ کا نظریہ تو ہندوستان کے کوچے کوچے میں گونج رہا تھا کہ
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے
یا یہ کہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
تبصرہ لکھیے