ون ڈش پارٹی تھی عید کے کافی دنوں بعد اور وہاں ہر طرح کی ڈشز تھیں ماڈرن اور دیسی ہر طرح کے خوبصورت لباس میں خواتین تھیں جن میں مجھے سب سے منفرد، سادی اور معصوم اپنے سادہ سے پروقار پاکستانی لباس میں گرم کورٹ پہنے ایک دس گیارہ سالہ بچی کے ساتھ نظر آئیں، نظر ملتے ہی نظروں سے سلام کیا اتفاق سے کھانا لینے کے بعد وہ میرے ہی برابر آکر بیٹھی، اجنبی لیکن باقاعدہ مجھے سلام کیا، لہجہ بتا رہا تھا کہ پاکستانی ہیں کیونکہ پاکستانی لباس تو یہاں اکثر لوگ شو قیہ پہنتے ہیں بہو کی دوستوں میں سے تھی، دل خوش ہوا۔ پلیٹ میں "چھولے چاول" کے سوا کچھ نہ تھا جبکہ میرے پاس پیزا نگٹس اورچپس تھے۔کیا نام ہے آپ کا؟ آپ کی پلیٹ میں چھولے چاول دیکھ کر بہت اچھا لگا!وہ بہت خوش ہوئی اور کہا مجھے بہت پسند ہے کبھی کبھار ہی کھانے کو ملتے ہیں مزید باتوں میں پتاچلا کہ اس کا نام خدیجہ ہے والدہ کا نام اور تعارف پوچھنے پر نہ جانے کیوں کچھ مغموم ہو گئی؟ مزید پوچھنے پر کہ ماں کیا کرتی ہیں؟ کہاں رہتی ہیں؟ اس نے آہستہ آہستہ بتانا شروع کیا یقین جانئے ہمارا کھانے میں دل کم لگا مگر اس کی والدہ محترمہ کی کہانی خدیجہ کی زبانی سننے میں دل زیادہ لگا وہ بھی جیسے منتظر ہو یا تھی کسی سے بات کرنے کو کہنے لگی مجھے چھولے چاول بہت ہی پسند ہیں میری والدہ بہت ہی اچھے بناتی تھیں۔ والدہ مرحومہ مجھے بہت ہی ضعیف لگتی تھیں ہمیشہ سے، مزید تعلق پوچھنے پر خدیجہ نے بتایا کہ والدہ بھی شروع سے جیکب لائن کے ایک سکول میں پڑھاتی تھیں، ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں، خاصی محنتی محب وطن خاتون!وہ بتاتی تھیں کہ وہ اپنی والدہ یعنی نانی اور چند رشتہ دار دوں بہنوں اور دو بھائیوں کے ساتھ جب پاکستان آئیں تو صرف 11 سال کی تھیں اور سب سے بڑی تھیں۔ ہر طرف ڈر خوف رہتا تھا کیونکہ آزادی کے ہنگاموں میں والد صاحب کے ساتھ کافی دوسرے لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔ امی سے لپٹی ہوئی ڈری سہمی دو دن تک ٹرین میں جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی پاکستان پہنچیں! سارے ہی بہن بھائی مجھ سے اور ماں سے چپکے ہوئے تھے بھوکے پیاسے تھکے ماندے ٹرینوں پر حملوں سے بچتے بچاتے کافی دور چلنے کے بعد انہیں ایک ٹینٹ میں رکوایا گیا جہاں پانی اور چھولے چاول کی چھوٹی چھوٹی پلیٹیں کھانے کو دی گئیں بس اتنی تھوڑی مقدار کے نیت نہ بھری مگر شاید پیٹ بھر گیا۔ وہاں کافی ہجوم تھا اور سب بڑھ بڑھ کر یہی لیکر کھا رہے تھے۔لیٹنے کی جگہ بھی وہاں مشکل تھی، نہ جانے کیسے افراتفری اور پریشان بیمار لگتے لوگوں کے درمیان یہ کھانا دینے والے پاکستانی زخموں پر مرہم لگے، نہ جانے کب آنکھ لگ گئی پھر نہ جانے کون اگلے دن وہی چھولے چاول کھانے کے بعد ہمیں لینے آگئے۔ چھوٹی سی گاڑی میں تین پھیروں میں ہم ایک چھوٹے مکان میں پہنچے ماں نے بتایا کہ آپ کے مامو ں جان کا گھر ہے وہاں کوئی 25 کے قریب لوگ تھے۔مکان میں صرف دو کمرے چھوٹا ساصحن اور دو ٹاٹ کے پردے لگے کنارے پر چھوٹے سے باتھ روم اور غسل خانے تھے۔ جن میں پانی بھرا بڑا مٹکا لمبی ڈنڈی والا مگا رکھا تھا کہ یہی پانی استعمال کرنا ہے نہ جانے کیا وقت تھا اور چھولے چاول پک رہے تھے نانی اور والدہ بھی دیکھنے لگ گئیں! چند گھنٹوں میں سب کھانا مرد حضرات تھالوں میں لے گئے کہ نئے آنے والے مہاجروں کے لیے خوشی خوشی سے لے جا رہے ہیں!ہم نے بھی پھر تھوڑے تھوڑے چھولے چاول کھا ئے اور مزے کیے۔ مناظر دیکھتے رہتے لیکن امی اور نانی دیگر افراد کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی کہ یقین نہیں آ رہا کہ ہم اپنے ملک پاکستان میں ہیں سبحان اللہ!صحن میں کچھ لوگ نماز اور عبادات میں بھی نظر آئے جن میں عورتیں اور دو مرد مطلب بزرگ اور چند لڑکیاں بھی تھیں ان کے یہی چند رشتہ دار چچا چچی، تائی،ماما اور بہن بھائی تھے۔نانی بہت خوش ہر دم شکرانہ ادا کرتی نظر آتی تھیں۔کافی متحرک اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کام اور کسی نہ کسی کی خدمت کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ کئی دن تک اس طرح چھولے چاول پکتے رہے اور نئے کراچی آنے والے مہاجروں کے لیے جاتے رہے۔ کم وسائل میں یہی بڑی خدمت تھی وہ بھی ایسے خوشی خوشی روزانہ یکا دکا نئے افراد بھی آتے گئے اور کم بھی ہوتے گئے کیونکہ کوئی نہ کوئی رشتہ دار اپنے لوگوں کو لے جاتے۔صرف ہم لوگ چچی چچا ماموں اور نانی بہن بھائی رہ گئے۔پھر خدیجہ کی آنکھیں بھر آئیں کہ میری ماں صرف بی۔اے میں آئی تھیں کہ نانی انتقال کر گئیں۔ ماموں پہلے ہی انتقال پا چکے تھے میری والدہ پر ساری ذمہ داری آگئی اور انہوں نے بہن بھائیوں کے لیے اپنی امی کی طرح جیکب لائن کے ہی اسکول میں کام کیا۔ ٹیوشن سے ہی ہم سب کو پڑھایا لکھایا، لٹے پٹے نئے مہاجروں کے لیے میری نانی ماں کے گھر پرہر وقت جذبہ خیر سگالی کے تحت کام ہوتے رہتے تھے۔سارا سارا دن پیسے جمع کر کے محنت خلوص اور محبت سے لوگوں کے کام کرتے رہے،مفت پڑھاتے کسی کو کام پر لگاتے خدیجہ کی آنکھیں بھر آئیں کہ میں نے بھی ماں کی طرح کئی لڑکیوں کو مفت پڑھایا بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ دیگر لوگ جنہیں میں اپنے رشتہ دار سمجھتی تھی صرف ساتھی مہاجر دوست احباب تھے اتنے مخلص اور وطن سے محبت کرنے والے کے وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور امی کی شادی ہی 45 سال میں ہوئی اور میں امی کی لاڈلی بیٹی اکلوتی!امی کی طرح امی کو ہی رول ماڈل مان کر محنت سے کام کرتی رہی،اکثر ماں کو کمزور لاغر اور تھکا پا کر خود چستی سے ان کا ڈھیروں کا م منٹوں میں کر دیتی جس پر امی نہال ہو جاتی تھیں۔ میرے میٹرک میں آنے تک ماں بہت بیمار ہو گئیں مگر پھر بھی اپنے غم زدہ بیمار رشتہ داروں اور ہم سب کی ذمہ داریاں اٹھاتیں مزید رشتہ داروں کی متلاشی ماں اور والد صاحب بھی کافی محبت اور محنت سے اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے لیے جتے رہتے اور سب کا بہت خیال رکھتے یہاں تک کہ انہیں کبھی کھانا کبھی پیسے کپڑے وغیرہ دیتے دیکھا اور ماں کو تو کتنوں کی خدمت کرتے دیکھا جو کہ ہمارے رشتہ دار تک نہ تھے۔میرے ساتھ بہت سی لڑکیاں امی سے مفت پڑھتی تھیں پھر ماں نے میری شادی کر دی مجھے بھی امی کی طرح لڑکیوں کو پڑھانے کا شوق تھا پڑھنا بھی چاہتی تھی اب حالات بھی اچھے ہو چکے تھے۔ہماری چھوٹی سی گاڑی بھی آگئی مگر اچانک ماں کا انتقال ہو گیا اور چند دنوں بعد میرے شوہر مجھے آسٹریلیا لے آئے دوسرے سال والد صاحب بھی گزر گئے اللہ کی شان! آج میری بھی اکلوتی بیٹی ہے 12 سال کی ہے آج اس "چھولے چاول" نے میری ماں کی یاد دوبالا کر دی مجھے ماں کی اپنے وطن سے محبت بے لوث محنت اور شفقت نہال کیے رکھتی ہے مجھے اپنے والدین پر فخر ہے جنہوں نے پاکستان سے محبت کا حق ادا کیا کیونکہ آج اپنے وطن سے اتنی دور ہونے کے باوجود اپنی بیٹی اور شوہر میں پاکستان سے بے پناہ محبت اور لگن دیکھ کر بہت ہی خوش ہوتی ہوں، آپ کو دیکھ کر لگا پاکستان آگئی ہوں اس طرح پاکستان میں " چھولے چاول "کھاتی تھی اس کی خوشی دیکھ کر بہت اچھا لگا خوشی ہوئی مزید کہنے لگی ہم پردیس میں ہیں مگر میں شکر ادا کرتی ہوں کہ واقعی پاکستان ہم پر اللہ کا احسان بھی ہے انعام بھی، ہمیں واقعی اپنے عمل سے اسے اسلام کا قلعہ بنا ئے رکھنا چاہیے اور دل و جان سے اس کی حفاظت کرنی چاہیے لیکن آنٹی! اس کے سوالیہ انداز کو میں جان گئی اور منہ سے بے ساختہ نکلا: "موج بڑھے یا آندھی آئے!دیا جلائے رکھنا ہے"
ہوم << چھولے چاول- لطیف النساء
تبصرہ لکھیے