ایک انسانیت سوز معاملے کو اپنے تعصبات اور نظریات کی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا تو برا ہے ہی، اسے کوئی اور رنگ دے کر اپنے مخالف پر حملہ کرنے کے لئے ہتھیار بنانا اس سے بھی ہلکی بات ہے۔
کچھ لوگ خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی بہیمت کو پاک و ہند کے انسانوں کی نفسیات سے جوڑ کر یہ نتائج نکال رہے ہیں کہ اس خطے کے انسانوں اور ان کی تہذیب میں ہی مسئلہ ہے۔
خواتین کے ساتھ انسانیت سوز مظالم سفید فاموں نے بھی کم نہیں کئے آج تک کیے ہیں۔ فارنزک میڈیسن اور فارنزک سائکائٹری سے مجھے دلچسپی ہے۔ آپ خود کبھی یوٹیوب یا گوگل سے مغرب میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور خصوصا سفید فام سیریل کلرز کی تفصیلات ڈھونڈ لیں۔ ایسے بھیانک جرائم ملیں گے کہ روح کانپ جائے گی۔ بے شمار فلمیں اور سیریز بھی بنائی گئی ہیں۔ جن کے نام لینے اور تفصیلات سے میں صرف اس لئے گریز کررہی ہوں کہ بدی کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتی۔
کچھ لوگ اس واقعے کے پردے میں مذاہب خصوصا اسلام کی خلاف بھڑاس نکال رہے ہیں۔ صدیوں پرانے حوالہ جات نکال رہے ہیں۔ وہ شاید جان بوجھ کر صرف چند دہائیوں قبل کی ان انسانیت سوز مظالم پر پردہ ڈالنا چاہ رہے ہیں جومغربی سفید فام مردوں نے عورتوں پر ڈھائے۔ خصوصا ترقی یافتہ مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ، مہذب اور ذہین مردوں نے سائنسی اور طبی تجربات تک کے لئے سیاہ فام عورتوں کو گنی پگ کی طرح استعمال کیا۔
فیمنزم کی سرخیل مغربی عورتوں کا اعتراض مسلمان یا دیسی مردوں کے ہتک آمیز رویوں پر نہیں تھا۔ ان کے مطابق ان کو ملکیت، اور ووٹ وغیرہ کا حق تو کیا “پرسن” کا اسٹیٹس نہ دینے والے سفید فام ایلیٹ مرد تھے۔ عورت ہونے اور یوٹرس کو نفسیاتی مرض کی وجہ قرار دینے والے یورپ اور امریکہ کے انتہائی تعلیم یافتہ نیورولوجسٹس، ڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات تھے۔ یہ میں زمانہ قدیم کی بات نہیں کررہی۔ گذشتہ صدی کا ذکر کررہی ہوں۔
خواتین کو جنگوں اور جھگڑوں میں جنسی زیادتی کا شکار بنانا ازمنۂ قدیم سے ہر تہذیب میں رہا ہے جس پر اسلام نے سخت قدغنیں اور پابندیاں لگائیں ۔ افغانستان عراق ویت نام میں امریکی فوج اور بوسنیا میں کروشیائی فوج کے ہاتھوں مسلمان خواتین کی اجتماعی عصمت دری تاریخ کا سیاہ باب ہے ہی ۔ ماضی قریب میں ہیلری کلنٹن امریکی فوج میں امریکی خواتین کی عصمت دری پر آواز اٹھانے کے حوالے سے مشہور ہوئیں۔
کچھ لوگ اسے مرد و عورت کا قضیہ بنارہے ہیں، جس سے ردعمل کی نفسیات پیدا ہوتی ہے اور ظلم پر دکھ کے اظہار کو دفاعی بحث الزام تراشی میں بدل دیتی ہے۔
پھر کہوں گی جرائم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ کوئی صنف اس میں پیچھے نظر نہیں آتی صرف صنفی اوصاف میں امتیاز کی وجہ سے جرم کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ عصمت دری مرد کرتا ہے تو مظلوم کو چارہ عورت سہولت کار بناتی ہے، بھارت کے افسوسناک واقعے میں بھی یہی ہوا ہے۔
“سب مرد درندے ہیں!” یہ اتنی ہی ناانصافی کی بات ہے جتنی یہ کہ “تمام عورتیں بے حیا ہیں۔”
ہم نے بھی پاکستان میں ڈاکٹری کی، نائٹ شفٹس کیں، احتیاط بھی کرتے تھے ڈرتے بھی تھے۔ مگر کام بھی کیا۔ سفر بھی کیا۔ اب بھی انڈین ڈاکٹرز اور میل الائیڈ ہیلتھ وغیرہ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مگر ایسا معاملہ تو نہیں دیکھا کہ ہر مرد درندہ بن گیا ہو۔ اس لئے پوری صنف کو ، پوری قوم کو مجرم بنانے والی شام کے اخبار والی باتیں نہ کریں۔
کچھ لوگ اسے عورت کی بے پردگی اور ملازمت سے جوڑ رہے ہیں۔ ان سے عرض ہے کہ جرم کرنے والا شیطان گھر میں گھس کر محفوظ عورت کو نہیں چھوڑتا۔ عصمت دری اور قتل کرنے کا کوئی جواز دنیا کی کوئی عدالت تو کیا اسلامی عدالت بھی قبول نہیں کرے گی اس لیے اس معاملے میں اسلام کے ٹھیکیدار بننے سے گریز کریں۔ کہیں فقہا اور علماء آپ کو ہی بہتان لگانے کے جرم میں کوڑوں کی سزا نہ سنا دیں۔
پھر یہ سب کیا ہے؟
یہ سب سے پہلے لاقانونیت، کرپشن اور ارباب اختیار کی طرف سے جرائم کی پشت پناہی کا شاخسانہ ہے۔
دوسری سطح پر یہ نظام تربیت کی تباہی کا مظہر ہے۔
تیسری طرف انسان میں موجود حیوانی جبلتوں کو ہوا دینے والے عوامل بے تحاشہ بڑھ رہے ہیں اور لگام دینے والی آوازیں اور کوششیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔
آفاقی سچائیوں کو اپنے تعصبات سے آلودہ کرنے اور متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کیجئے۔یہ ضمیر کی زندگی اور انسانیت کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے
تبصرہ لکھیے