"یا الہی! مسلمانوں کو امن وامان کے ساتھ علیحدہ وطن نصیب فرما دے۔" عمارہ ہاتھ اٹھائے، ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعاؤں اور مناجات میں مصروف تھیں۔
وہ مسلسل عبادت میں مصروف شب قدر کے حصول کے لیے کوشاں تھیں۔
یہ رمضان المبارک کی ستائیسویں اور 13 اگست 1947ء کی بابرکت رات تھی۔ لاہور کی رہائشی ان پرعزم گھریلو خاتون کے ہونٹوں پر پاکستان کے قیام اور تحریک پاکستان کے کارکنان کے لیے دعائیں ہی دعائیں تھیں۔
شوہر، بیٹے، بیٹیاں، باپ، بھائی، بہنیں اور ان کی آل اولاد غرض پورا خاندان اس عظیم جہدوجہد میں شامل تھا۔ انہیں سو فیصد یقین تھا کہ ان کا علاقہ پاکستان میں شامل ہوگا۔
رات دھیرے دھیرے گزرتی جا رہی تھی۔ اکثر مسلمان مساجد اور گھروں میں عبادات میں مشغول تھے۔ 11 بج کر 50 منٹ ہو چکے تھے۔ مسلمانان ہند ایک عظیم خوشخبری کے انتظار میں بھی تھے۔
اتنے میں ریڈیو سے اناؤنسر مصطفی علی ہمدانی کی آواز ابھری۔
"یہ "آل انڈیا ریڈیو لاہور" ہے۔ آپ ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجئے!"
موسم گرما کی اس مرطوب رات میں صرف پندرہ منٹ بعد 14 اگست 1947ء کو 12 بج کر 5 منٹ پر ریڈیو سے وہی آواز پھر گونجی
"یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ آپ کو "پاکستان مبارک" ہو۔"
یہ سن کر لاکھوں مسلمان سجدے میں گر پڑے۔ وہ جذبات واحساسات کی آمیزش سے مغلوب ہوگئے تھے۔ آزادی کا اعلان سن کر ان کے دل کھل اٹھے تھے، وہ اس عظیم نعمت کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے۔ ان کے جذبات کے دھارے بہہ نکلے اور آنکھیں پرنم ہو گئیں۔
"ہم تہہ دل سے اللہ تعالیٰ کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر تحریکی رہنماؤں کے شکر گزار ہیں۔" انہوں نے خود کلامی کی اور سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے بہتے آنسوؤں کے ساتھ شکر ادا کرنے لگیں۔
"امی جان! بہت بہت مبارک ہو ۔ آج پاکستان ایک علیحدہ وطن بن گیا ہے اور ہم ایک آزاد قوم بن گئے ہیں۔ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہو گیا ہے الحمد للہ۔" بڑے بیٹے مغیث نے کافی جوش و خروش سے کمرے کے اندر آتے ہوئے با آواز بلند کہا۔ اس کی آواز جذبات کی شدت سے کانپ رہی تھی۔ اور آنکھیں مسرت سے چمک رہی تھیں۔
"مبارک ہو، مبارک ہو۔"
اس کے ساتھ دوسرا بیٹا منیب بھی تھا۔ وہ بھی بے انتہا پرجوش اور خوش دکھائی دے رہا تھا۔
آواز سن کر انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بیٹوں کے معصوم اور دلکش چہروں پر خوشی و راحت رقصاں تھی۔ ان کی مسرت بھری آوازیں سن کر دوسرے کمروں سے گھر کی دیگر خواتین اور بچیاں بھی آگئی تھیں۔
"مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو" سب بے ساختہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ اور گھر مبارک باد کی صداؤں سے گونجنے لگا۔
مغیث نے قریب آکر ماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا، اس کی گرفت میں جوش اور بے چینی تھی۔ وہ سرشاری کے عالم میں تھا۔
"خیر مبارک۔ آپ سب کو بھی بہت بہت مبارک ہو۔" عمارہ نے پرنم آنکھوں سے ان کی مبارک باد کا جواب دیا۔
الحمدللہ۔ قائد اعظم اور دوسرے رہنماؤں نے ان تھک جدوجہد اور محنت کی ہے۔ سالوں کی کاوشیں اور قربانیاں آخرکار رنگ لائی ہیں۔" چند ثانیے بعد عمارہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
سب کے دل محبت اور امید سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔
"آخر کار ہم مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن حاصل کر لیا ہے جہاں ہم آزادی سے رہ سکتے ہیں اور بلا خوف و خطر اسلام پر عمل کر سکتے ہیں ان شاءاللہ۔" منیب بھی خوشی سے سرشار تھا۔
وہ بڑے پر امید اور روشن مستقبل کے خواہاں تھے۔
"دیکھو تو آسمان بھی امید و بیم اور آزادی و حریت کے کینوس سے رنگا ہوا ہے۔" عمارہ کی نگاہ چھت پر پڑی تو کہنے لگیں۔ سب نے رات کی مدھم روشنی میں اوپر دیکھا تو سبز ہلالی پرچم ہوا کے دوش پر لہراتا دکھائی دیا۔
"امی جان! آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟" منیب نے والدہ کا پرتفکر چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"مجھے یقین ہے کہ ہندو اور سکھ وغیرہ ان حالات میں خاموشی سے قیام پاکستان کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے بے تحاشہ قتل و غارت اور ظلم و تشدد کریں گے اور مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔" انہوں نے پریشانی اور خوف سے کہا۔ ان کی آواز بدترین خدشات کے پیش نظر کانپ رہی تھی۔
"بالکل۔ حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں کسی حد تک خوف و دہشت اور اداسی بھی چھا رہی ہے کیونکہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ غیر منصفانہ تقسیم کی بدولت ہندوستان میں شامل ہونے والے مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے گھر اور خاندان چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنی پڑے گی۔ وہ مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اور ہجرت کا کٹھن سلسلہ تو کئی ہفتے قبل شروع ہو چکا ہے۔" ان کے شوہر عبداللہ صاحب نے تفصیلی جواب دیا۔
لوگ بہت خوش تھے، نعرے لگا رہے تھے اور مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ طاق رات کا خیال بھی ملحوظ خاطر تھا۔
لہذا عمارہ اور اہل خانہ بھی اس عظیم طاق رات کی قدر و قیمت کا احساس کرتے ہوئے دعاؤں اور عبادات میں مشغول ہو گئے۔
شب کے اندھیرے سمٹتے جا رہے تھے، سب اہل خانہ سحری کرکے روزہ رکھ چکے تھے، فجر کی اذانیں شروع ہو گئی تھیں۔ مرد اور لڑکے مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے لیے چلے گئے تھے۔
صبح کی روشنی پھیلنے کی ابتدا ہو گئی تھی۔ عمارہ نماز کے بعد اب صحن میں بیٹھی قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھیں۔ پارہ مکمل کرنے کے بعد قران مجید بند کرکے احترام سے غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا اور دروازے کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھا۔ وہ شوہر اور بیٹوں کی آمد کی منتظر تھیں لیکن نگاہیں مایوس لوٹ آئی تھیں۔
اب ان کی نظریں افق پر جمی ہوئی تھیں اور سورج طلوع ہونے کا انتظار کر رہی تھیں تاکہ وہ اشراق کے نفل ادا کر سکیں اور اس کے بعد کچھ دیر سو سکیں۔ انہوں نے گزشتہ ساری طاق رات جاگ کر عبادت کرتے ہوئے اور پاکستان جیسی مقدس اور عالی شان نعمت کے لیے شکر ادا کرتے ہوئے گزاری تھی۔ اچانک عبداللہ صاحب، مغیث اور منیب باتیں کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔
جیسے ہی آفتاب کی پہلی کرن افق پر پڑی، روشنی صحن میں بڑھنا شروع ہو گئی۔ عمارہ نے قریبی مسجد پر لہراتے ہوئے جھنڈے کی طرف اشارہ کیا۔ "دیکھیں، پاکستان کا جھنڈا اونچا لہرا رہا ہے، یہ ہماری آزادی کی علامت ہے!"
سورج کی پھیلتی کرنیں آج نئی نئی اور زیادہ روشن محسوس ہو رہی تھیں۔ آج عمارہ کے انگ انگ میں سرشاری اور شکر گزاری کی کیفیت محسوس کی جا سکتی تھی۔ ایک آزاد وطن کا باشندہ ہونے کی خوشی ہی الگ تھی۔
مغیث اور منیب نے خوشی سے بے حال ماں کو دیکھا اور پھر خود بھی فخر اور خوشی و مسرت کی عجیب سی کیفیات محسوس کیں۔ وہ ماں کی حالت اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔
چونکہ وہ مسلم علاقہ میں تھے اور محفوظ تھے، لہٰذا اب سارا محلہ جوش و خروش سے گونجنا شروع ہو گیا تھا، لوگ بہت خوش تھے، نعرے لگا رہے تھے اور مٹھائیاں بانٹ رہے تھے۔
عمارہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ انہوں نے اور عبداللہ صاحب نے بچوں کو جدوجہد آزادی، آباؤ اجداد کی قربانیوں، علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے کی گئی کوششوں اور قائد کی اٹل لگن کی کچھ باتیں سنائیں، کچھ یادیں دہرائیں، کچھ عہد و پیمان تازہ کیے اور آنے والے کل کے لیے انہیں تیار کیا۔
بچوں نے یہ سب غور سے سنا، ان سے دل گرمایا، اور تاریخ کی محنتوں اور دستک دیتے روشن مستقبل کے وعدے محسوس کیے۔
جیسے جیسے دن چڑھتا گیا، ارد گرد کی گلیاں لوگوں کی آمد و رفت، مبارکبادوں، نعروں اور خوشی و مسرت کے قہقہوں سے بھر گئیں۔ چھتوں پر ہلال اور ستارے والے سبز پھریرے لہرانے لگے ، خوشی مناتے ہوئے سب دل فخر اور امید سے روشن ہو رہے تھے۔
انہیں معلوم تھا کہ ہماری قوم کی آزادی محض ایک سیاسی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان اور بظاہر ناممکن خواب کا حصول ممکن ہوا ہے۔ وہ خواب جو علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ممکن ہوئی تھی۔
"یہ ایک نئی صبح ہے جو مسلمانوں کے لیے طویل پر مشقت دور کے بعد امن، خوشحالی اور خوشی لائے گی ان شاءاللہ۔" عبد اللہ صاحب نے بڑے عزم و یقیں سے کہا۔
"ان شاءاللہ۔" سب لہجے امید و یقین سے گندھے ہوئے تھے۔
عمارہ نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے عبداللہ صاحب اور بچوں سے کچھ باتیں ڈسکس کیں، پھر سونے کے بجائے کام کو ترجیح دیتے ہوئے کچن میں جا کر راشن وغیرہ چیک کیا، بیٹیوں، گھریلو ملازمہ اور دو تین ہمسائیوں کو بلوا کر اپنے ساتھ شامل کیا، کھانا پکانے کے لیے سامان نکالا، بڑے بڑے پتیلے نکالے، ان کے نیچے آگ جلائی اور کھانا پکانے کا آغاز کر دیا۔ چند گھنٹوں بعد کھانا تیار ہوا تو وہ تقریباً ڈیڑھ دو سو لوگوں کے لیے کافی تھا۔
"خبریں مل رہی ہیں کہ واہگہ بارڈر پر آنے والی ٹرینیں آزادی کے مسافروں کو لے کر پہنچ رہی ہیں جن میں اکثر شہیدوں کی لاشیں ہوتی ہیں اور زندہ افراد کی تعداد کم، بہت کم، آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہیں، اور ان میں بھی اکثر زخمی ہوتے ہیں۔" مغیث بڑے دکھی انداز میں بتا رہا تھا۔
یہ جان کر سب بے تحاشہ غمگین ہو گئے تھے۔ حالات کا اندازہ تو سبھی کو تھا لیکن اس طرح کی باتیں انہیں نئے سرے سے غم و الم میں مبتلا کر دیتی تھیں۔
بعد میں کچھ عرصہ بعد جب حالات کافی بہتر ہو گئے تو پھر ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ انہیں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش دی گئی اور ان کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات زندگی پوری کرنے کا بندوبست کیا گیا۔
"امی جان! ارد گرد کے گھروں میں بھی اسی طرح کے کام اور مصروفیات شروع ہو چکی ہیں۔ لوگ پاکستان پہنچنے والے مہاجرین کے لیے کھانا تیار کر رہے ہیں اور اپنے گھروں کا سامان سمیٹتے ہوئے گھر کشادہ کر رہے ہیں تاکہ ضرورت مند لوگوں کو رہائش دے سکیں۔" اسے منیب بیٹے سے یہ سب جان کر دلی مسرت ہو رہی تھی۔
"الحمدللہ۔ لوگ انصار مدینہ کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔" اس نے خوشی سے کہا۔
جب رفتہ رفتہ لاکھوں مسلمانان ہند ہجرت کرکے زندہ سلامت پاکستان کے مختلف علاقوں میں پہنچے، تو مقامی لوگوں نے ان کے استقبال اور مدد کے لیے اپنے دل اور گھر کھول دیے۔ انہوں نے ضرورت مند لوگوں کو کھانا، پناہ گاہ اور آرام کی پیشکش کرتے ہوئے ان کے پاس جو کچھ موجود تھا، وہ ان کے ساتھ شیئر کیا۔
بہت سے خاندانوں نے تارکین وطن کو مہمانوں جیسی خدمات مہیا کیں، انہیں تحفظ مہیا کیا اور تعلق کا احساس فراہم کیا۔ تھکے ہوئے مسافروں کو خوراک اور طبی امداد فراہم کرنے کے لیے امدادی مراکز قائم کیے گئے تھے۔
مقامی رضاکاروں نے پناہ گزین کیمپ قائم کرنے میں مدد کی، اور لوگوں کو پناہ اور ضروریات فراہم کیں جنہوں نے ہجرت کے سفر میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔
مقامی لوگوں میں سخاوت اور مہمان نوازی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وہ ضرورت کے وقت مہاجرین کی مدد کے لیے اکٹھے ہوئے اور حتی الامکان ان کی مدد کی۔
ان بے لوث خدمات اور اخوت ، اور ہمدردی نے تارکین وطن کو نئے وطن میں اپنی زندگیوں کی تعمیر نو میں مدد کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔
ابتدائی نہایت کٹھن حالات کے باوجود پاکستانی ایک روشن مستقبل کی تلاش میں متحد و منظم تھے۔ انہوں نے ساتھ مل کر ایک ایسی قوم کی تعمیر کے سفر کا آغاز کیا تھا جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے امید کی کرن اور مشعل راہ ثابت ہوئی تھی۔
تقریباً آٹھ دہائیوں بعد حالات واقعات بظاہر بڑے ناسازگار ہیں لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود، اس کا پہلی اسلامی ایٹمی قوت و طاقت کا حامل ہونا دشمن کے سینے پر مونگ دلتے رہنا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا ان شاءاللہ۔
بلاشبہ پاکستان، قرآن اور رمضان لازم و ملزوم ہیں!!!
رمضان اور قرآن استحکام پاکستان کے ضامن ہیں!!!
یہ پاکستان کے محافظ اور نگران ہیں!!!
اور قوم کی تعمیر و ترقی کی بنیاد ہیں!!!
تبصرہ لکھیے