ہوم << جس نے ڈالی بری نظر ڈالی -لطیف النساء

جس نے ڈالی بری نظر ڈالی -لطیف النساء

معلوم نہیں کیسے خود بخود امی کی زبان سے سنا ہوا یہ شعر مجھے یاد ہو گیا اور وقت کے ساتھ ہر جگہ ایسا ہی محسوس کیا بھی گیا وہ کہتی تھیں کہ:
اچھی صورت بھی کیا عجب شے ہے؟
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
حیا انسانی فطرت ہے اسی لیے تو بچوں میں تک یہ عنصر پایا جاتا ہے کہ وہ کسی کے سامنے کپڑے بدلنا تک نہیں چاہتے اور شرم دکھاتے ہیں شرماتے ہیں یعنی اتنا سا بچہ تک اپنا پیٹ دکھانا نہیں چاہتا گویا اس کو بھی ایک طرح سے ننگا رہنا پسند نہیں کیونکہ وہ اپنی حیا کے پیش نظر ایسا کرتا ہے بالکل اسی طرح دیکھیں ہمارے معاشرے میں خاص کر آج کل دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جنہیں ہر طرح کا فیشن اپنانا آتا ہے چاہے وہ کیسا ہی لگے!بازو نظر ائیں، گھٹنے سے تھوڑا اوپر تک تھری کوارٹر کے نام سے پاجامے پہنتے ہیں خاص کر نوجوان تو کیا آج کل بڑی عمر کے لوگ تک انہی حلیوں میں نظر آتے ہیں انہیں ذرا خیال نہیں آتا ہے کہ کہاں جا رہے ہیں؟کون کیسے دیکھ رہا ہے؟ جب پہننے والوں کو ہی لاج نہیں آتی تو دوسروں کو کیا کہیں؟ اسی طرح عورتیں دیکھیں؟میڈیا اور غیر مسلموں کی نقالی فلموں ڈراموں میں پائے جانے والی کھلی بے حیائی معاشرے کا ناسور بنتی جا رہی ہے۔ جب سے باربی ڈول متعارف ہوئی ہے اس کا حلیہ اس کا لباس ماحول سے حیا کو ختم کرتا ہی چلا گیا پہلے بڑے بوڑھے، والدین اپنے بچوں بچیوں کو گڑیا گڈے کا لباس اتارنے تک کی اجازت نہیں دیتے تھے ان کے کپڑوں کو تک سی سی کر بند کر کے گویا بے حجابی سے بچایا جاتا تھا تو اس گڑیا اور اس کے مخصوص ہر طرح کے کپڑے جوتے جیولری ہر طرح کی استعمال کی اشیاء نے بچوں بچیوں میں چیزیں عام کر دیں اب انہیں نامناسب تنگ، دو پیس، ون پیس ہر طرح کے کپڑے سمجھ آنے لگے کیونکہ انہیں وہ خود ہی اچھا لگنے لگا خاص کر والدین خود بچیوں کو ایسے ماڈرن لباس پہنانے لگے جن سے ان کے اندر کی حیا خود بخود جاتی رہی دوپٹے غائب، تو اونچی نیچی شرٹ،پاجامے تو کیا ٹائٹس،پتلون،میکسی،منی ڈریس کی بھرمار ہونے لگی۔ بال کھال میں سب کچھ نظر آنے لگے، نہ شرم رہی نہ لحاظ، والدین نے خود بھی کسی حد تک انہیں اپنانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ شلواریں اور دیگر علاقائی لباسوں کی کمی ہوتی چلی گئی، دوپٹے گئے تو ساتھ ساتھ بے حیائی فحاشی انتہا کو پہنچ گئی اوپر سے لکس بیوٹی کریموں اور شیمپو کے اشتہارات نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا اور رہی سہی کسر تھی یوں پوری کر دی کہ اب تو کیا لڑکیاں، کیا عورتیں، حضرات تک فیشل، ویکس،ہیئرا سٹائلز اور نہ جانے کیا کیا کرتے نظر آتے ہیں نہ ان کے بال اور نہ ہیئر اسٹائل دیسی رہے نہ کپڑے نہ چال ڈھال، عجیب برا حال ہے! عورتیں ان کے لباس اللہ کی پناہ لباس کی تقاضے کہاں گئے۔اتنے سی تھرو کپڑے اف اللہ!کپڑے پہن کر بھی ننگے لگیں، اوپر سے تراش خراش یہ لیگنگ نما پاجامے جو کبھی بچوں بچیوں کو وہ بھی تین چار سال سے چھوٹے بچوں کو پہنائے جاتے تھے اب ہر دوسری محترمہ زیب تن کیے بڑے بڑے چاک کی قمیض پہن کر گلے میں پٹا ڈالے ہر طرح کی سواری یا پیدل ہی یہ جا وہ جا، لپا تھوپا چہرہ اوپر سے بالوں کی لٹیں یا عبایا بھی پہنا ہے تو وہ بھی ناکافی! فیشن کا مارا، مزید مشکوک بنائے!سوائے چند کے۔ جب یہ ماحول ہوگا تو شیطانی حرکات کیوں نہ حملہ آور ہوں گی کیوں نہ آئے دن ایسے ہولناک واقعات ہوں گے؟کیوں نہ اغواء اور بے حرمتی جنم لے گی۔ جب عورتیں ہی خود اپنے آپ کواس انداز میں پیش کریں، ایمان ہی وہ طاقت ہے جو بندے کی اخلاقی گواہی دیتا ہے، بے حجابی، ایمانی خلل اور ایک طرح کی بے ایمانی تو ہے۔دوسروں کی بگاڑ یا اگلے کی نیت کو برائی کی طرف مائل کرنے والی بے حیائی اور فحاشی ماحول میں ہی کیا میڈیا اور موبائل کے ذریعے ہر بندے کی دسترس میں گویا اس کے ہاتھ ہی میں موجود ہے۔عورتوں کے بارے میں تو کتنی سخت وعیدیں ہیں کہ بے حجابی گناہ ہے! آخر لوگ تمہارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں اسی لیے چہرے کے حجاب کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ ٓاخر لوگ چہرے ہی سے تو پہچانتے ہیں یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی دیدار صرف چہرے کا کرتے ہیں اس لیے اس کے حجاب پر خاص زور دیا گیا ہے کیا یہ خوبصورت بات ہے عورت چیز ہی ایسی ہے اور" اچھی صورت" واقعی کیا عجب شے ہے۔ واضح چیز یہی اس کی پہچان ہے۔ سارے باڈی پارٹس ہر ملک کے لوگوں کے مخصوص لباس میں ہوتے ہیں جو ان کی ملک کی ثقافت کا اعلان ہوتا ہے لیکن اب تو سب کچھ گڈمڈ ہو گیا ہے۔ مسلم غیر مسلم سب اس طرح گھل مل گئے ہیں مگر پھر بھی سبحان اللہ اب بھی مسلمانوں کے اندر ایک ان کا اپنا ایسا لباس ہے جو اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں آپ لوگ بیک ورڈ ہو کیا حرج ہے اس لباس میں؟ حجاب صرف لباس میں ہی نہیں عورتوں کے بارے میں حکم ہے کہ اس کی آواز بھی غیر مرد کے لیے ذرا سخت ہونی چاہیے تاکہ کسی ضعف الایمان بندے کے دل میں بدگمانی نہ آئے نہ کہ بن بن کر اترا کر لجھا کر زور زور سے بولا جائے یا انتہائی شرما کر ناز دکھاتے ہوئے بولا جائے۔ عورت کا چہرہ بھی اس لیے حجاب چاہتا ہے کہ معاشرے کو برائی سے بچایا جائے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
تمہارا چہرہ تو ہر دم حجاب مانگتا ہے
ہر ایک لمحے کا تجھ سے حساب مانگتا ہے
واقعی مجھے یاد ہے کہ جب کرونا ہوا تھا تو عورتیں تو کیا مردوں کو بھی حجاب کرنے کا عار نہ تھا مگر ہم نے خاص تحفظ دیکھا جراثیم تو نظر نہیں آتے تھے مگر نظروں کے تیروں سے ضرور بچاؤ ملتا تھا اور پھر واقعی اتنا اعتماد بڑھا کہ واقعی حجاب میں ہی سکون لگنے لگا ایک نڈر پن ایک تحفظ اور ایک طرح کی خوشی، ان تمام باتوں سے میرا مطلب ہے کہ حجاب ہونا ہی ایک طرح کی مسلم عورت کا وقار اور طرۂ امتیاز ہے، پہچان ہے، ظاہر ہے اللہ کے احکام کی بجا آوری انعام ہے بگاڑ نہیں۔ سبحان اللہ! اللہ تعالی ہمیں کتنا نوازنا چاہتا ہے اور ہم ہیں کہ خود اپنی دشمن تو بنے ہی ہیں اپنے ساتھ بھائی، باپ،شوہر، بیٹے سمیت سینکڑوں کو جہنم کی دعوت دے رہے ہیں تو کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے؟ زندگی بہت مختصر ہے اس میں تو ہمیں رب کا شکر کرنا چاہیے کہ رب نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔ حیا ایمان کا جز ہے اگر یہ آپ کے اندر ہے تو سمجھو سب کچھ مل گیا:
تمہیں سجنے سنورنے کی ضرورت کیا ہے؟
تم پہ سجتی ہے حیا کسی زیور کی طرح!
اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے حیا کا زیور دے کر ہمیں سیپی میں چھپی قیمتی موتیوں کی طرح معزز بنا دیا پس اس حیا کی ایمانی روشنی سے اپنے دونوں جہاں روشن کریں تاکہ زندگی کے مقصد ادا ہوں اور دونوں جہاں کامیابی۔