مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ہر روز نت نئے ٹیکسز، بنیادی اشیا ئے ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ،غریب اور بے بس عوام کا جینا مشکل سے مشکل کرتا جا رہا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت پاکستان کے قومی مسائل تو ہیں ہی مگر ان سب سے بڑھ کر ایک مسئلہ وسائل کی غیر منصافانہ تقسیم ہے۔
آج کل ملک میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع بجلی کے بلوں کا ہے ۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا ایک بڑا سبب بھی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے منسلک ہے کیونکہ لاکھوں میں تنخواہ لینے والوں کے لئے سینکڑوں/ ہزاروں یونٹ بجلی مفت دی جاتی ہے اور غربت کے بوجھ تلے پسے پاکستانیوں کے لئے بجلی کے بھاری بھرکم بل، ہر مہینے بل بھرنا ناممکن صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں اور حکومت آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب ٹیکس کی صورت میں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔
اس وقت ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک بنگلہ دیش میں بجلی کی اوسط قیمت 17 روپے فی یونٹ ہے اور افغانستان میں یونٹ 15.12 روپے فی یونٹ ہے جبکہ اگر پاکستان کی بات کریں تو فی یونٹ 35 روپے اور اس میں ٹیکسوں کا اضافہ ہونے کے بعد اس کی قیمت 60 روپے فی یونٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ کیپسٹی پیمنٹ ہے کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے بھی کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔
کیپسیٹی پیمنٹ کو لے کر ملک میں اس وقت کافی بحث چل رہی ہے اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان کے سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پاور پلانٹس کو کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات جاری کیں۔ انھوں نے دعوی کیا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاور پلانٹس کو کپیسِٹی پیمنٹ کی مد میں 1900 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔عالمی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق گوہر اعجاز کا دعوی ہے کہ 2015 میں بجلی کی کھپت اوسطا 13 ہزار میگاواٹ تھی جبکہ کل پیداواری صلاحیت 20 ہزار تھی جس کے لیے 200 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں 2024 میں بجلی کی مانگ کی اوسط 13 ہزار میگاواٹ ہی ہے تاہم اس دوران پیداوار بڑھ کر 43 ہزار سے بھی زیادہ پر آگئی ہے جس میں 23 ہزار 400 میگاواٹ کے نئے آئی پی پیز شامل ہیں۔ان کے مطابق پیداواری صلاحیت میں اضافے کے باعث کپیسٹی پیمنٹ 10 گنا بڑھ کر دو ہزار ارب روپے پر پہنچ چکی ہے۔
گوہر اعجاز کے مطابق 52 فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت جبکہ بقایا 48 فیصد میں نجی اور سی پیک کے تحت چلنے والے پلانٹس شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے ہوں گیاس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ حکومت کو بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریبا 35 روپے پڑتی ہے جس میں 10 روپے 60 پیسے فیول کے اور 24 روپے کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔ ان کا کہنا کہ تھا تقسیم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین کو 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچ رہی ہیں اس کے باوجود حکومت کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
نیپرا کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 90 آئی پی پیز ہیں اور ہر ماہ جب آپ کا بل آتا ہے تو اس میں استعمال کیے گئے مجموعی یونٹ کے علاوہ انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیرِ پانی و بجلی اویس لغاری نے مختلف انٹرویوز میں دعوی کیا ہے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدے انتہائی مجبوری کی حالت میں کیے گئے تھے کیونکہ اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ کا بحران تھا۔ انھوں نے ادائیگیوں میں اضافے کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے ایک حصہ نیشنل ٹرانسمیشن لائن پر آنے والی لاگت ہے جو تقریبا تین روپے فی یونٹ ہے، جبکہ تقسیم کار کمپنیاں پانچ روپے فی یونٹ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمت آٹھ سے دس روپے فی یونٹ ہے۔ باقی 18 روپے آپ ان پلانٹس کا کرایہ دے رہے ہیں ۔آئی پی پیز کو لگانے کا سود ، قرضے کی واپسی، روپے اور ڈالر ریٹ کا فرق، اور اس کا منافع ہے جو سرمایہ کاروں کو دیا جاتا ہے اس کو کپیسٹی پیمنٹ کہتے ہیں۔
اویس لغاری کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ساہیوال پاور پلانٹ جب 2015 یا 2016 میں لگایا گیا تو اس کی فی یونٹ کپیسٹی پیمنٹ تین روپے کے قریب تھی، آج وہ بڑھ کر 12 روپے ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریبا 80 ارب روپے کی کییپیسٹی پیمنٹ ان فرنس آئل پلانٹس کو جاتی ہے جو1994 اور 2002 کی پالیسی کے تحت لگائے گئے تھے۔ وزیر توانائی کے مطابق تیل کی زیادہ قیمت کے باعث یہ پلانٹس استعمال نہیں ہوتے۔ اویس لغاری کا کہنا تھا کہ حکومت ان پلانٹس کی مکمل پیمنٹ کرکے انھیں بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دیگر آئی پی پیز سے بھی بات کی جائے گی۔
حکومت کو آئی پی پیز سے مذاکرات کرنے ہوں گے ان معاہدوں پر نظر ثانی وقت کی ضرورت بن چکی ہے جو پاور پلانٹ بجلی پیدا ہی نہیں کر رہے ان کو ہر ماہ اربوں روپوں کی ادائیگیاں صارفین کی جیب اور ملکی معیشت پر بھاری بوجھ ہے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو گوجس طرح گوجرانوالہ میں بھائی نے سگے بھائی کو بجلی کے بل تنازع پر قتل کر دیا اس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے