قسط نمبر: 2
اب جیبوں کو کھنگالا اور پھر مطمئن ہو کے ارادہ مصمم کرلیا کہ ہم دونوں حج پہ جا سکتے ہیں پھر بیوی سے کہا کہ نیک بخت خوش قسمتی سے حکومت نے اس بار شارٹ پیکیج بھی لانچ کر دیا ہے جو کہ بیس سے پچیس دن کا ہے ہم اس میں اپلائی کر دیتے ہیں آگے سے تنک کر بولی کیتی نا فیر ارائیاں آلی گل۔
میں نے بمشکل نیفے میں دھوئیں کو دباتے ہوئے جواب دیا کہ اے چائنہ کی سیّدانی یہ ہتھوں پچھہتر ہزار فی کس مہنگا ہے اور حج تو وہی چار پانچ دن کا ہے اوپر کے دن تو اضافی یعنی نفلی ہیں ایک دو عمرے تو اس میں بھی آسانی سے ادا ہو جائیں گے۔
تو الٹا شرمندہ ہونے کے بجائے فرمایا آپکے لئے تو 80 دن والا پیکیج ہونا چاہئے۔
میں نے سڑ کر کہا دیکھو پھر میں ایک کم از کم مؤمن ہوں بس ضروری ضروری عبادتیں کروں گا جتنی ہمت توفیق ہوئی حرم میں نماز پڑھوں گا کبھی ڈنڈی بھی لگ گئی تو میرے گلے نا پڑنا تمہارا جب دل کرے جاؤ آؤ بھلے وہاں اعتکاف میں بیٹھ جاؤ لیکن مجھے نا دھرْونا (گھسیٹتا)۔
ہاں جو اصل حج کے ایام ہیں اس میں انشاء اللہ کوئی کمی کوتاہی نہ آنے دوں گا کیونکہ یہی مقصود سفر ہے۔
بولی لو جی اب عبادت بھی حسبِ ذائقہ ہوگئی۔
پھر پاسپورٹ رینیو ہونے دئیے بینک میں درخواست جمع کروائی بینک والوں نے پوچھا کہ قربانی آپ خود کریں گے یا سرکاری ہوگی میں نے کہا جب سب کچھ سرکار کر رہی ہے تو قربانی میں کیا قباحت ہے ویسے بھی ہماری سرکار کھال بہت اچھی اتارتی ہے اور ہم سے تو یہاں جانور نہیں لیا جاتا چہ جائیکہ غیر ملک میں خجل ہوتے پھریں۔
پھر بینک والوں نے پوچھا کہ ڈبل روم لیں گے کہ شیئرنگ کریں گے
فرق ہوچھا تو بولے کہ ڈبل روم کا ایک لاکھ اسی ہزار مزید دینا ہوگا
میں نے کہا کر دیں
بولے فی کس ایک اَسی ہے
میں۔ فیر رہن ای دیو اسی ڈبل اچ وی سونا تے شیئرنگ اچ وی سونا۔
(وقفہ نماز ہمارے ساتھ جڑے رہئے )
تبصرہ لکھیے