ہوم << وادی کمراٹ کی سیر۔ سید معظم معین

وادی کمراٹ کی سیر۔ سید معظم معین

حصہ دوم

وادی کمراٹ کوہ ہندوکش کی ایک خوبصورت وادی ہے جو خیبرپختونخوا کے علاقے دیر بالا میں واقع ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے دنیا کے تین بڑے اور مشہور پہاڑی سلسلوں سے نواز رکھا ہے جن میں دنیا کی خوبصورت اور بلند ترین چوٹیاں واقع ہیں یعنی کوہ ہندو کش، کوہ ہمالیہ اور قراقرم۔ یہ پہاڑی سلسلے پاکستان کے علاوہ بھارت چین افغانستان اور نیپال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کوہ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر ہے جو چترال میں واقع ہے جبکہ کوہ ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ نیپال میں ہے۔ سلسلہ قراقرم کی سب سے بلند اور دشوار ترین چوٹی کے ٹو ہے جو پاکستان میں واقع ہے۔ مشہور زمانہ نانگاپربت بھی کوہ ہمالیہ کا حصہ ہے جو دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے۔ یہ وہی ہمالیہ ہے جسے "ہمالہ" بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی 1904 میں ایک مشہور نظم "ہمالہ" لکھی تھی

اے ہمالہ اے فصیلِ کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں 

خیر وادی کمراٹ ایسی ہی ایک وادی ہے جیسی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پھیلی ان گنت خوبصورت وادیاں ہیں۔ اگر آپ کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر کمراٹ کے راستوں پر چھوڑ دیا جائے تو آپ سوات، کالام، کاغان، کشمیر اور کمراٹ کے راستوں میں کوئی خاص تمیز نہیں کر سکیں گے۔ آزاد کشمیر کے علاقے کیرن، کیل وغیرہ بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی نوعیت کا منظر رکھتے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ یہاں آپ کے ساتھ ساتھ دریائے پنجکوڑہ بہتا ہے، سوات میں دریائے سوات، کاغان میں دریائے کنہار اور کشمیر میں دریائے نیلم۔

دریائے پنجکوڑہ کے علاوہ جو چیز ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی وہ جماعت اسلامی کے ممبر صوبائی اسمبلی محمد علی کے نام کے وہ بورڈز تھے جو جابجا نصب تھے اور ان پر لاکھوں کروڑوں کے فنڈز سے مختلف منصوبوں کی شنید دی گئی تھی مگر سڑک کے حالات سے عیاں ہوتا تھا کہ فنڈز کے معاملے میں ابھی صوبائی حکومت کے درمیان بات چیت ہی چل رہی ہے۔

اصولی طور پر اس وادی کو جانے کے لئے چار بٹا چار گاڑی مطلوب ہے مطلب جس کے چاروں پہیے چلتے ہوں، ٹائر مضبوط اور انجن طاقتور ہو۔ ہاں اگر گاڑی کرائے کی ہے یا اس سے جان چھڑانا مطلوب ہے تو کوئی بھی گاڑی چل جائے گی۔

بمع اہل و عیال جانے کا سوال ذہن میں رکھنے والوں کو ہمارا یہی مشورہ ہے کہ اگر گھر والوں کو سبق سکھانا مقصود ہو تو یقینا اس سفر سے وہ بخوبی پورا ہو سکے گا لیکن اگر آپ کے تعلقات اچھے ہیں اور آپ انہیں اچھا ہی رکھنا چاہتے ہیں تو پھر فی الحال ہم یہی کہیں گے کہ اور بھی وادیاں ہیں جہاں کی سیر کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔

بہرحال گرتے پڑتے شام ڈھلے ہم تھل پہنچ ہی گئے۔ راستے میں شرینگل اور کلکوٹ وغیرہ نمایاں مقامات تھے جہاں ہم رکے بغیر گزرتے رہے تھے۔

گرین ہلز ہوٹل نام سے جتنا ایڈوانس لگتا ہے حقیقت میں ایسا تھا نہیں۔ ہوٹل کا مالک سردار خان ہوٹل کا مینیجر بھی خود ہی تھا ویٹر بھی اور کیشئیر بھی سب کچھ خود ہی تھا۔ اس بااخلاق نوجوان نے بتایا کہ ابھی یہ ہوٹل شروع کیا ہے اور سیاح آنا شروع ہوئے ہیں۔ اس کے عزائم جوان تھے کہ آہستہ آہستہ پیسے جمع کر کے ہوٹل کی حالت میں بہتری لائے گا۔ رات کے کھانے کی بات ہوئی تو سردار خان نے کہا جو کہیں گے پک جائے گا۔ ہم چونکہ اس بات کا مطلب جانتے تھے لہذا ہم نے اپنی دانست میں سب سے بے ضرر چیز کا آرڈر دیا یعنی چکن کڑاہی۔ خلاف توقع کڑاہی مناسب تھی بلکہ مناسب سے کچھ بہتر ہی تھی۔

وہ رات تھل میں گزاری۔

رات خاصی خنک تھی اور ہم کوئی خاص گرم کپڑے نہیں لائے تھے ویسے بھی آپ جانتے ہیں کہ نوجوانوں کو سردی کہاں لگتی ہے۔ ہوا تیز چل رہی تھی جب ہم رات کے کھانے کے بعد ہوا خوری کے لئے تھل کی "مال روڈ" پر نکلے۔ چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر چائے کا آرڈر دیا۔ چائے والے نے گاہکوں کے بیٹھنے کا خاصا ہوادار انتظام کر رکھا تھا جس نے چند ہی منٹوں میں ہماری قلفی جما دی تھی۔ اس ہوٹل نما کھوکھے یا کھوکھے نما ہوٹل میں بیٹھے دیگر افراد جو زبان بول رہے تھے وہ ہمیشہ کی طرح پہاڑی علاقوں میں ہمیں پشتو ہی لگی مگر درحقیقت وہ کوہستانی زبان تھی۔

چائے سے واپسی پر ہم چاروں جیسے ہی بستروں میں گھسے چند لمحوں میں نیند کی آغوش میں پہنچ گئے اور فرخ اور خلیل کے مابین خراٹوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ اگر ہم بھی کافی سے زیادہ تھکے نہ ہوتے تو ضرور اس مقابلے کے فاتح کا اعلان کرتے مگر ہم خود اس وقت شاید اس مقابلے میں برابر کے شریک تھے۔

صبح حسب معمول ہم نے سب کو مار مار کر جگایا۔ پھر بھی سونا نمبر ایک اور سونا نمبر دو کرتے کرتے نو بج گئے تھے۔

جہاز بھانڈا، باڑ گوئی، کالا چشمہ اور کٹورا جھیل کے علاوہ ایک چھوٹی سی آبشار اس علاقے کے نمایاں مقام ہیں۔ کٹورا جھیل تک جانے کے لیے تو خاصا پیدل چلنا پڑتا ہے البتہ آبشار اور کالا چشمہ مقام تک جانے کے لئے جیپ کرائے پر آسانی سے دستیاب تھیں۔

تھل کو اس علاقے میں وہی مقام حاصل ہے جو ناران کو وادی کاغان میں حاصل ہے یا کالام کو وادی سوات میں حاصل ہے۔ یعنی سیاح اس علاقے میں قیام رکھتے ہوئے ارد گرد کے علاقوں میں سیر و تفریح کر سکتے ہیں۔ تھل کہنے کو تو وہاں کا نمایاں مقام تھا مگر سہولیات کے اعتبار سے سر دست خاصی توجہ کا متقاضی تھا۔ سڑک کی حالت نہایت پتلی تھی۔ بازار، دوکانیں، ریستوران اور ہوٹل انتہائی خستہ حالت میں تھے۔ شاید ابھی وہاں سیاحت اتنی پروان نہیں چڑھی تھی کہ مقامی افراد ان سہولیات کو بہتر بنا سکتے۔ البتہ سڑک کو بہتر کرنا اور دیگر سہولیات بہم پہنچانا حکومت کا کام تھا جو دیگر گوناگوں مصروفیات کی بنا ہر تاحال توجہ سے محروم ہی تھا ظاہر ہے حکومت کے پاس کرنے کو اور بہت سے کام ہوتے ہیں۔ تھل سے تھوڑا آگے فوج کی چوکی قائم تھی جہاں ہیلی ہیڈ بھی تھا۔ ہیلی ہیڈ سے ہمیں پتا چلا کہ اس خوبصورت مقام پر پہنچنے کا واحد راستہ صرف وہ خستہ حال سڑک ہی نہیں تھی۔ اگر آپ کے پاس یا آپ کے کسی دوست کے پاس ہیلی کاپٹر ہو تو آپ بڑے آرام سے بغیر خراب سڑک پر خوار ہوئے وادی کمراٹ پہنچ سکتے ہیں جیسا کہ ہمارے چہیتے سیاستدان پہنچتے ہیں اور عوام کو بھی وہاں جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

مقامی آبادی کا نمایاں ذریعہ معاش ذراعت اور گلہ بانی تھا۔ جگہ جگہ زمین ہموار کر کے فصلیں اگائی گئی تھیں جن میں خواتین اور بچے بچیاں بھی کام کرتے نظر آتے تھے۔ آلو اور گوبھی کی فصلیں تیار کھڑی تھیں اور کئی ایک مقامات پر تو کٹائی کے بعد پیداوار ٹرکوں میں بھی لادی جا رہی تھی۔

تھل میں جامع مسجد دارالسلام ایک تاریخی مسجد تھی جو لکڑیوں سے تعمیر کی گئی تھی بتایا گیا کہ یہ ڈیڑھ سو سال پرانی مسجد ہے لیکن اس کی پیشانی پر سجے بورڈ پر تاریخ افتتاح 1953 لکھی ہوئی تھی جبکہ دوسری منزل کی تعمیر کا سن 1999 لکھا ہوا تھا۔ خوبصورت انداز میں تعمیر شدہ وہ مسجد واقعتا دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی جس کی دیواروں اور ستونوں پر دیدہ زیب رنگوں سے آرائش کی گئی تھی۔ کئی ایک دیواروں پر خوبصورت لکڑی کا کام کیا گیا تھا۔ (جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment