ہوم << قصہ حسین علیہ السلام کے سر کا- ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قصہ حسین علیہ السلام کے سر کا- ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قسط نمبر 1
“ یہ مضمون میری آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی “ شامل ہے ۔ جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے ۔”

اسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب سے اڑتیس کلومیٹر جنوب کی طرف بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر غزہ سے چودہ کلو میٹر دور ایک پانچ ہزار سال پرانا شہر ہے جسے عسقلان Ascalon کہتے ہیں ۔ یہ شہر یروشلم سے مغرب کی طرف اسی کلومیڑ کے فاصلے پر ہے ۔
اس کا موجودہ نام ایشکیلون Ashkelon ہے ۔
عسقلان صدیوں تک اس علاقے کی مشہور اور اہم ترین بندرگاہ رہا ۔ اور قدیم کنعان میں سلطنت فلسطیا Philistia کے مشہور پانچ شہروں میں شامل تھا جنہیں مجموعی طور پر Pentapolis کہتے تھے ۔ ان شہروں میں غزہ ، عسقلان ، گاتھ ، عشدود اور عقرون شامل تھے ۔ کچھ عرصہ جافا ( موجودہ تل ابیب ) بھی پنٹا پولس کا حصہ رہا ۔
یہاں فلسطی Philistines قوم آباد تھی ۔
ان پانچ شہروں میں عسقلان کو اپنے مضبوط فوجی قلعے اور جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے خصوصی اور مرکزی اہمیت حاصل تھی اور یہ شروع سے ہی انتہائی مضبوط اور اہم فوجی مستقر رہا ہے ۔
اور اسی وجہ سے عسقلان کو کنعان اور فلسطین کا دروازہ بھی کہا جاتا تھا ۔ کیونکہ جو بھی عسقلان پر قابض ہوتا ۔ بالآخر وہی یروشلم کا بھی مالک بنتا ۔
مغرب اور یورپ سے بحیرہ روم کے ذریعے آنے والے حملہ آور جنگی حکمت عملی کے تحت پہلے عسقلان پر قبضہ کرتے اور پھر یروشلم کی جانب بڑھتے ۔
عسقلان ایک قلعہ بند شہر تھا ۔اس کے نواح میں ایک چھوٹے سے گاؤں الجورہ al-Jura کے باہر ایک اونچی پہاڑی چوٹی پر کبھی ایک انتہائی شاندار مشہد(زیارت گاہ) ہوا کرتی تھی ۔ جہاں فاطمید شیعہ روایات کے مطابق تقریباً اڑھائی سو سال تک ( 906ء اور 1153ء کے درمیان ) حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک دفن رہا ۔ اس زیارت کا نام مشْهد ٱلحُسَين تھا ۔ پچھلے بارہ تیرہ سو سال سے یہ جگہ فاطمید اور بوہری شیعہ حضرات کی مقدس ترین زیارت گاہوں میں شامل ہے ۔
الجورہ حماس کے بانی شیخ یٰسین کی جائے پیدائش بھی ہے۔
دس اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے بہتر ساتھیوں سمیت شہید ہوئے تو شمر بن ذی الجوشن
نے آگے بڑھ کر جاں بلب حسین علیہ السلام کا سر تن سے جدا کیا اور ایک نیزے کی انی پر لٹکا کر ہوا میں بلند کر دیا ۔
‎ابو مخنف اسلامی تاریخ کے ابتدائی مورخین میں سے تھے۔ ان کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ ان کی سب سے مشہور کتاب مقتل الحسین ہے جو مقتل ابو مخنف کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں واقعات کربلا بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔ واقعہ
‎کربلا کے بائیس سال بعد چشم دید گواہوں کے بیانات کے بعد انہوں نے یہ کتاب لکھی ۔یہ وہ گواہ تھے جو اس جنگ میں شریک تھے ۔ یا جنہوں نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے رونما ہوتے دیکھے تھے ۔ ان کی اس کتاب کو تاریخ میں بہت معتبر اور اعلی مقام حاصل ہے اور بعد میں آنے والے بیشتر تاریخ دانوں نے جن میں الیعقوبی ، البلازری ، محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون، ابن کثیرغرض تقریباً سب ہی مفسرین اور مورخین نے اپنی کتابوں میں انہی کو نقل کیا ہے ۔ جدید دور کے تمام مغربی تاریخ نویس اور مستشرقین بھی ابو مخنف سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں ۔
آئی کے ہارورڈ I K A Howard نے اپنی کتاب “ ہسٹری آف الطبری” میں طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ “ اپنے سارے ساتھیوں کے شہید ہو جانے کے بعد عمر بن سعد کے حکم پر شمر نے چند سپاہیوں کے ساتھ انہیں گھیرے میں لے لیا اور نیزوں کے وار کر کر کے ان کے بازؤں اور سینے کو چھلنی کر دیا ۔ زخموں کی تاب نہ لا کر وہ گھوڑے سے گر پڑے ۔ سنان ابن انس نے بڑھ کر ان کے سینے میں خنجر گھونپا اور ان کا سر قلم کر کے شمر کے حوالے کر دیا جو اس فوج کے میسرہ کا سالار تھا۔ “
جرمن تاریخ دان جولئیس ولہاؤسن Julius Wellhausen کے مطابق آپ کے جسم پر ساٹھ سے زیادہ زخموں کے نشان تھے ۔ آپ کا سر نیزے پر لہرانے کے بعد شمر نے ابن زیاد اور عمر بن سعد کی ہدایات کے مطابق آپ کے تمام ساتھیوں کے سر بھی قلم کئے ۔ آپ کے کپڑے نوچ لئے آپ کی تلوار اور دیگر سازوسامان لوٹ لیا۔ اور اس کے حکم پر دس گھوڑ سواروں نے جسم مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے روند ڈالا۔ حرملہ نے امام حسین کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر سے شہید کیا۔
شمر نے سالار لشکر عمر بن سعد کے حکم پر آپ کا سر مبارک اور دیگر شہداء کے سروں کو اسیر اہل بیت کے ساتھ کوفہ کے گورنر ابن زیاد کی خدمت میں بھیج دیا۔
شمر اور اس کی فوج کے جانے کے بعد کربلا کے قریبی گاؤں غاضریہ کے رہنے والے بنو اسد نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی بےگوروکفن لاشوں کو کربلا کے میدان میں ہی جنازے کے بعد دفنا دیا۔
تاریخ طبری میں ہے کہ “
685 ء میں مختار ثقفی نے حضرت حسین علیہ السلام کے قتل کا بدلہ لیا اور عمر بن سعد، حرملہ، شمر، ابنِ زیاد، سنان بن انس کو قتل کیا اور ابنِ زیاد کا سر کاٹ کر امام زین العابدین کی خدمت میں بھجوایا ۔ جسے دیکھ کر انھوں نے اہلِ بیت کو سوگ ختم کرنے کا کہا۔”
يحيى بن جابر البلاذری نے اپنی کتاب “ أنساب الأشراف” میں لکھاہے کہ
“ مختار ثقفی نے شعبان 65 ھ ق میں حضرت حسین کے قتل کا بدلہ لینے کے بعد کربلا میں قیام کیا اور اپنے اس قیام کے دوران امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک بنا تعمیر کرائی اور اس پر اینٹوں سے گنبد بنوایا۔ اس نے مقبرے کے ساتھ ایک مستف
عمارت اور ایک مسجد بنوائی اور مسجد میں دو دروازہ قرار بنوائے جس میں ایک مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی سمت کھلتا تھا۔”
جولئیس ولہاؤسن لکھتا ہے کہ “ جب آپ کا سر ابن زیاد کے پاس پہنچا تو اس نے اپنی چھڑی آپ کے منہ مبارک پر چبھوئی اور حضرت زین العابدین کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
لیکن حضرت زینیب کی درخواست پر اپنا حکم واپس لے لیا۔ “
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں البلاذری سے مروی ہے کہ
“ ابن زیاد نے انتہائی سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے خون آلود سر مبارک کو نیزے سے اتار کر زمین پر پھینک دیا اور پاؤں سے ٹھوکر یں مارنے لگا ۔ پھر گر د آلود بالوں سے پکڑ کر سر کو اوپر اٹھایا اور چھڑی سے آپ کے دانتوں اور چہرے پر کئی وار کئے جس سے آپ کے سامنے کے کئی دانت ٹوٹ گئے ۔
اس نے حضرت زین العابدین کو بھی شہید کرنے کی کوشش کی جو بیمار ہونے کی وجہ سے اس دن جنگ میں حصہ نہیں لے سکے تھے اور جنگ کے دوران اپنے خیمے میں موجود رہے ۔ لیکن اپنے احباب کے کہنے پر اپنے اس مذموم ارادے سے باز رہا۔ “
ابن زیاد نے سر مبارک کو دیگر شہید اصحاب کے سروں اور آپ کے اہل خانہ سمیت یزید بن معاویہ کے دربار میں فتح کے پیغام کے ساتھ روانہ کر دیا ۔
‎طبری سے مروی ہے کہ
‎یزید اپنے محل میں ""جیرون" کے اوپر بیٹھا ہوا تھا اور وہاں سے شہدا کے مقدس سروں اور اہل بیت کے اسیر قافلہ کو دیکھ رہا تھا اس وقت اس کو یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا گیا۔
‎لما بدت تلک الحمول و اشرقت
‎تلک الشموس علی ربی جیرون
‎نعب الغراب فقلت صح او لا تصح
‎فلقد قضیت من الغریم دیونی
‎جس وقت وہ قافلہ ظاہر ہوا
‎اورسورج (شہداء کے سر) جیرون کی بلندی پر چمکنے لگے تو اس وقت ایک کوّے نے فریاد کی ۔ میں نے کہا : تو فریاد کر یا نہ کر ، میں نے اپنے مقروضوں سے اپنا قرضہ وصول لیا ہے۔
‎ان اشعار میں وہ اپنے اجداد کے خون کا انتقام لینے کی بات کرتا ہے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنا قرض یعنی جاہلیت کے زمانے میں رسول اسلام سے اپنے خون کا بدلہ لے لیا ہے ۔
جیرون اس کے محل اور دربار کاایک حصہ تھا جو آجکل مسجد میں شامل ہے ۔
آئی کے ہاورڈ نے طبری کی روائیت کو بیان کیا ہے کہ
“ جب یہ لٹا پٹا تباہ حال قافلہ دمشق پہنچا تو یزید نے بڑے کروفر اور اہتمام سے دربار سجایا اور جب متاثرین کربلا اس کے دربار میں پیش کئے گئے تو پورے دربار میں ان کا کوئی ہمدرد نہ تھا۔ یزید نے بھی وہی مذموم اور ناپاک حرکت کی جو ابن زیاد نے کی تھی اس نے اپنی چھڑی آپ کے منہ مبارک پر اور دانتوں پر مارتے ہوئے کچھ اشعار کہے جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔
‎لعبت ھاشم بالملک فلا
‎خبر جاء ولا وحی نزل
‎لیت اشیاخی ببدر شھدوا
‎جزع الخزرج من وقع الاسل
‎لاھلوا واستھلوا فرحا
‎ولقالوا یا یزید لاتشل
‎فجزیناہ ببدر مثلا
‎واقمنا مثل بدر فاعتدل
‎لست من خندف ان لم انتقم
‎من بنی احمد ما کان فعل ) ۔
“ بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئی نہ کوئی فرشتہ آیا ہے ۔
‎کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو، تم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا”۔
‎میرا تعلق ""خندف" کی اولاد سے نہیں ہے جو میں احمد ﷺ (رسول اکرم) کی اولاد سے انتقام نہ لوں
‎الیاس بن مضر بن نزار کی بیوی کا لقب خِندِف ہے ، جس کا نام لیلا بنت حلوان تھا ، الیاس کی اولاد کو اس کی بیوی کے نام سے اولاد خِندِف کہتے ہیں (لسان العرب)
بنو عدنان میں الیاس وہ برگزیدہ شخصیت ہیں جو رسول اللہ کے سترھویں پشت پر جد امجد ہیں۔
‎ان اشعار کا دورسرا بیت ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سخت ترین دشمن عبداللہ بن زبعری کا ہے ۔ اس نے جنگ احد اور رسول خدا کے کچھ اصحاب کے قتل ہونے کے بعد یہ اشعار کہے اور ان اشعار میں اس بات کی آرزو کی کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے ہمارے مقتول آج ہوتے اور وہ دیکھتے کہ قبیلہ خزرج (مدینہ کے مسلمان قبائیل )کس طرح گریہ و زاری کررہے ہیں ۔ یزید نے ان اشعار سے استفادہ کیا ہے اور باقی اشعار خود کہے ہیں
‎اسی طرح مقتل الحسین مقرم میں نقل ہوا ہے کہ یزید اسی
‎مجلس میں امام حسین علیہ السلام کے ہونٹوں اور دانتوں پر مارتے ہوئے کہہ رہا تھا:
‎یوم بیوم بدر۔ آج کا دن بدر کے دن کے مقابلے میں ہے ) ۔
‎مقتل الحسین مقرم میں ہی لکھا ہےکہ “امام حسین کی شہادت کے بعد سعید بن عاس جوکہ اس وقت مدینہ کا حاکم تھا، منبر پر جاکر پیغمبر اکرم ﷺ کی قبر کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے: یوم بیوم بدر ۔ آج کا دن بدر کے دن کے مقابلے میں ہے ۔ انصار اس کی اس بات سے ناراض ہوگئے اور اس پر اعتراض کیا۔
‎یہ اشعار مختلف تعبیرات کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کی متعدد کتابوں میں یزید سے نقل ہوئے ہیں جیسے : تاریخ طبری ، امالى صدوق، ص 231; مناقب ابن شهر آشوب، ج 4، ص 123; بحارالانوار، ج 45، ص 133; تاريخ طبرى، ج 8، ص 188; البداية و النهاية ابن كثير، ج 8، ص 208; مقاتل الطالبيين، ص 80; اخبار الطوال دينورى، ص 267; تفسير ابن كثير، ج 1، ص 423 و شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید۔
ایک درباری نے گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے اہل بیت کی خواتین کو لونڈی بنانے کا مشورہ دیا جس پر حضرت زینب اور یزید کے درمیان ایک تلخ مکالمہ ہوا۔ یزید کے خاندان کی عورتوں نے اہل کربلا کا ساتھ دیا اور ان خواتین کے ساتھ ملکر ماتم کرتی رہیں ۔ “
‎مقتل الحسین مقرم میں درج
‎ہےکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر کو تین دن تک دمشق کے داخلی دروازے پر لٹکانے کے بعد اسے دمشق کی جامع مسجد میں باب جیرون کے نزدیک ایک طاق میں رکھ دیا گیا ۔ باب جیرون وہی جگہ ہے جہاں یہودیوں نے حضرت یحییٰ کو شہید کرنے کے بعد ان کا کٹا ہوا سر اس دروازے سے لٹکایا تھا
حضرت حسین علیہ السلام اور کربلا کے حوالے سے یہاں تک تو تمام شعیہ اور سنی علماء مورخین اور محدثین میں واقعات کی تھوڑی بہت تفصیل کے حوالے سے اختلاف کے باوجود اتفاق ہے ۔
لیکن اس کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر کے ساتھ کیا بیتی اس بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔
حضرت حسین علیہ السلام کے سر کے حوالے سے سات روایات ہیں ۔
(جاری ہے )