ہوم << علمی و ادبی مکالمہ-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

علمی و ادبی مکالمہ-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

عصر حاضر کے معروف نقاد ، محقق ، مصنف ، شاعر ڈراما نگار اور کالم نگار وحید عزیز کے ساتھ لاہور گیریژن یونیورسٹی میں ایک علمی وادبی نشست ہوئی جس میں میزبانی کے فرائض استاد، محقق اور نقاد ڈاکٹر سیف ولہ رائے نے انجام دیے ڈاکٹر سیف ولہ رائے ادب ،تاریخ، تنقید اور کلچر کے مباحث کے حوالے سے ایک معتبر حوالہ ہیں۔

سوال نمبر1:
عصر حاضر کے ڈراموں کا معیار آپ کے نقطہ نظر کے مطابق کیا ہے؟
جواب:
ہر دور کا اپنا تقاضا ہوتا ہے ، وہ تقاضا ہی کسی حد تک معیار کا تعین کرتا ہے ۔ اب گلیمر کا دور ہے۔ ہر چیز ایک نئے انداز اور چمک کے ساتھ دکھائی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرانے ڈراموں اور نئے ڈراموں میں فرق آگیا ہے کہانی کا معیار پہلے کی نسبت ضرور پست ہوا ہے ۔ اب کہانی کے مضبوط ہونے سے زیادہ اسے دکھایا کیسے جائے گا اس پر کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی کے اعتبار سے ڈرامے کمزور محسوس ہوتے ہیں۔
سوال نمبر2:
ادب کی طرف آپ کا جھکاؤ کب ہوا؟
جواب:
گھر کا ماحول پڑھے لکھنے والا تھا تو کتابوں سے دلچسپی فطری طور پر طبعیت میں شامل ہو گئی اور پھر شاعری سے لگاؤ ہوا، الفاظ جو اچھے لگتے تھے انھیں جوڑ کر جملے بنانے کا شعور جاگا تو ادب سے تعلق مضبوط ہونے لگا۔
سوال نمبر3:
جدید ادبی تھیوری کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب:
انسان کی سوچ کو لچک دار ہونا چاہیے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں ابھرتی ہیں انھیں قبول کر نے کی سکت انسان کو اپنے مزاج میں پیدا کرنی چاہیے۔ جدید ادب پر سیٹلائٹ کی ترقی کے اثرات نمایاں ہیں۔ دنیا اب کا سوبل ویج سے گلوبل ہٹ میں بدل چکی ہے اس تبدیلی نے انسانی سوچ پر کئی طرح کے اثرات مرتب کیے ہیں وہ اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی ۔ میرے خیال کے مطابق ہمارے شعرو ادب کو بھی جدید سوچ پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور ہر اس تھیوری کی پیروی کر نی چاہیے جو جدیدیت کی گودہی سے جنم لے۔
سوال نمبر4:
ڈاکٹر صاحب! یہ بتائیے کہ ادب اور مطالبہ کے سباق و تناظر میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
مطالعہ انسان کو صاحب علم بناتا ہے ۔ انسان کے شعور کو نہ صرف پختہ بناتا ہے بلکہ اسے پُر اعتمادی عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے لیے بہتر فیصلے کر سکے۔ اگر چہ آج کا دور مطالعاتی کم ہے اور دیکھنے پر زیادہ انحصار کرتا ہے مگر مطالعہ کی اہمیت سے انکار آج بھی ممکن نہیں ہے۔ بالخصوص ادبی مطالعہ کا ذوق ہونا اور پھر اس ذوق کو اگر شوق بنالیا جائے تو تصور حیات واضح ہو گا اور اخلاقی اقدار کو بھی فروغ ملے گا۔
سوال نمبر5:
تخلیقی صلاحیت ودیعت ہوتی ہے یا ریافت؟
جواب:
اللہ نے قرآن حکیم میں فرمایا" ہم نے تمھیں قلم سے لکھنا سکھایا جس سے تم واقف نہ تھے" اس کا مطلب یہ ہوا کہ تخلیق کرنا، ولایعت ہے اللہ کا خاص احسان ہے ، کرم ہے اس کے بعد عطائے الہنہ کو سمجھنے کے لیے شعوری کیفیات کے تحت ریاضت کی جائے تو ودیعت نکھر کر سنور کر ، سامنے آجاتی ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں ودیعت الہینہ ہیں اردریافت انھیں پختہ بناتی ہے۔
سوال نمبر6:
"گوکل محقق" کو پیش نظر رکھتے ہونے کتاب اور قاری کا تعلق کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
اس سوال میں فطری الم بھی پنہاں ہے جو کہ کتاب دوست کے دل میں بسا ہوا ہے ۔ کتاب سے بہتر علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے مگر موجودہ دور میں ایک پیغام نسلوں کے اذہان میں رواج کی طرح بٹھا دیا گیا ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ گوگل کی ترقی نے اس وژن کو اور بھی فروغ دیا ۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب پڑھنے والا رواج دم توڑ گیا ہے اور محقق بھی گوگل زدہ دریافت ہو رہے ہیں۔ کتاب کا مخصوس حصہ اٹھایا اسے ہی پڑھا اور اپنی تحقیق کی زینت بنا دیا۔ کتاب سے تعلق جوڑ نے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات پر زور دیا جائے کہ اس سے بہتر ذریعہ تعلیم موجود نہیں ہے اور تعلیم ہی ذریعہ علم ہے۔
سوال نمبر7:
موجودہ تنقیدی منظر نامے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ناول کی تنقید کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:
عنصر حاضر میں تخلیق کا معیار اپنی سطح پر برقرار نہیں ہے تو پھر تنقید کا معیار کیسے اپنے اصل مقام پر موجود ہو سکتا ہے ؟ تنقید نہ تو تحسین ہے اور نہ ہی تنقیص بلکہ اس کا اپنا وجود ہے حیثیت اور اہمیت ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا ضروری تھا لیکن آج بھی ہم اس کے حقیقی وجود سے مکمل طور پر آمادہ نہیں ہو سکے۔ ناول نگاری کا مسئلہ یہ ہے کہ اب بہت کم لوگ نثرمیں خدمات انجام دے رہے بالخصوص ناول میں تو جب تخلیقی عملی ست راہ وری کا شکار ہو جائے تو تنقیدی عمل بھی اپنی اصل صورت میں ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ ناول کا نہیں ڈراما کا دور ہے۔
سوال نمبر8:
مذہب اور مارکسیت ، کلاسیکیت کے حوالے سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
جواب:
دیکھیں مذہب انسانی سوچ کا وہ خول ہے جو اس کے اندر پلنے والے خیالات کو آلودگی سے پاک رکھتا ہے ۔ لامارکس کے نظریات میں اشتراکیت اور اسی طرح کے موضوعات کو اہمیت دی گئی۔ غربت میں پسی انسانیت پر بات کی گئی ہے۔ ازل سے دوطبقات نمایاں ہیں۔ 1. امیر، 2. غریب، یہ انسانی کشمکش ہے اس پر ہردرر میں معاملات زیر بحث رہے ہیں۔ بلاشبہ انسانیت کی فلاح کے لیے کلاسیکی معشیت دانوں کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں، مارکزم میں بھی کچھ فلاحی انداز موجود ہیں مگر مذہب ایک ایسی چھتری ہے جو انسان کو زمانے کی دھوپ سے بچاتی ہے بالخصوص مذہب اسلام صرف عبادات ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ضابط حیات ہے۔
سوال نمبر9:
نائن الیوین کے تناظر میں ثقافتی و لسانی سطح پر ادبی تھیوری کا منظر نامہ آپ کے خیال کے مطابق کیا ہے؟
جواب:
11/9 کے بعد سیاسی ، سماجی ، ثقافتی قبلہ تبدیل ہوا ہے۔ حادثہ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ پسِ منظر میں اس کے محرکات کہا تھے؟ یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہ ماننا ہو گا کہ اس حادثے کے بعد لکھنے والوں کے ہاں بھی تعیر ضرور رونما ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس حادثے کے ماحول پر اثرات ہوئے اور مصنفین یا شعرا کی سوچ پر ماحولیاتی اثر لازم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناول، ڈراما، فلم، افسانہ سب میں کسی نہ کسی صورت اس حادثے کے اثرات نمایاں ہیں۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اکیسویں صدی میں ہم گلوبل ہٹ کی طرف بڑھ چکے ہیں اسی لیے اس حادثے کے اثرات براہِ راست سب کو محسوس ہوتے ہیں۔
سوال نمبر10:
عصری تناظر کے پیش نظر نسل نو کو شعر و ادب کی طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
اپنے ادبی ہیروز کی خدمات کا ذکر کر کے۔ ان کے کیے گئے تخلیقی کاموں کو اجاگر کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ان کی تخلیقات کا عصر حاضر سے کیا تعلق ہے تاکہ نئی نسل ان ادبی تخلیق کاروں کی پختہ سوچ سے آگاہ ہوا اور ان میں یہ شوق ابھر ے کہ وہ ان کی لکھی ہوئی کتب کو جائزہ کے طرز پر پڑھیں اور پھر عصر حاضر کے حالات کے ساتھ تقابل کرواکر اس بات کا فیصلہ کریں کہ ہمارے ادبی تخلیق کاروں نے اپنے ہنر سے کیا کیا کمال سرانجام دیے ہیں۔
سوال نمبر11:
"ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا" آپ کا رجحان نظم کی طرف کیوں نہیں ہوا؟
جواب:
غزل کو عروستہ الشاعری کہا جاتا ہے۔ اس لیے غزل کی طرف رجحان زیادہ رہا مگر نظمیں بھی کہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک نظموں پر مشتمل مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ میں ذاتی طور پر غزل کو زیادہ پسند کرتا ہوں