ہوم << جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیاست انسانی شعور کی اس کیفیت کا نام ہے جب وہ اپنی رضا و منشا سے کسی کو اپنا حق نمائندگی عطا کرتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز، مشاہدات و تجربات انسان کو میٹا بولزم کے عمل سے گزارتے ہیں۔ بن کر بکھرنا، بکھر کر بننا اس کے سنورنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بقول سلیم کوثر:
کیسا لگتا ہے سنورنے کے لیے
بعض اوقات بگڑنا مری جاں

انسان کو اگرچہ قدرت نے شعور کا پیکر بنایا ہے مگر شعور کی یہ کیفیت کسی نہ کسی سمت کی متلاشی ہے اگر سمت کا تعین نہ ہو تو شعور پھل پھول نہیں سکتا۔ انسان اپنے شعور کو پختہ بنانے کے لیے سب سے پہلے اپنے مذہب اور مذہبی پیشواؤں کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مذہب اس سلسلے میں سب سے بڑا رہنمائی کا ذریعہ ہے اور پیشوا مقام امامت پر کھڑا ہو کر اپنے مقتدیوں کی صف بندی درست کرواتا ہے۔ سیاست کبھی بری چیز کے طور پر نہیں رہی۔ سیاسی کردار برے ہوتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ وہ سمت کا تعین درست نہیں کرتے یا پھر بھٹک جاتے ہیں، بہک جاتے ہیں، ڈگمگاتی سوچ انھیں بے راہ روی پر لے جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ با شعور نہیں تھے اصل میں ان کے شعور کا غلبہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ کسی کے تابع رہنا اپنی خود ساختہ شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہ کیفیت اسے خود پسندی کے اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں تکبر اسے اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ یہ متکبرانہ کیفیت اسے اس کے فرائض سے کوسوں دور لے جاتی ہے۔ اس طرح وہ جس منصب پر بھی فائز ہو وہ معاشرتی اقدار، انسانی اصولوں سے نابلد ہی رہتا ہے۔
آمرانہ فطرت کسی بھی معاشرے کی تباہی کا ذریعہ ہے یا بنیاد ہے۔ جس جگہ بھی رائے اور اظہار رائے پر قدغن ہو گی وہ معاشرہ کبھی بھی اپنی حقیقی صورت میں ظاہر نہ ہو گا۔ دنیا کے تمام مذاہب نے اپنے ماننے والوں کے لیے جینے کے اور طرز حکمرانی کے اصول وضع کیے ہیں۔ اسلام نے سب سے اعلیٰ اور جمہووری اصول بنائے ہیں۔ اسلامی جمہوریت ایسی سیاست کو فروغ دیتی ہے جہاں ۲۲ لاکھ مربع میل سے زائد کا حکمران بھی ایک چادر کے لیے جواب دہ ہے۔ جمہوری عمل کی اس سے اعلیٰ مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ اب سوال یہ ہے کہ جمہوریت جس سمت چل رہی ہوتی ہے اس کا قبلہ دیکھنا لازم ہے کہ وہ درست بھی ہے یا نہیں؟
اگر آمرانہ مزاج معاشرے پر مسلط ہو جائے تو پھر ان جنگجوؤں کے مزاج پروان چڑھتے ہیں جن کا مزاج انسانیت کی فلاح سے متصادم تھا۔ جمہوری سوچ بغیر مذہبی فکر کے ترقی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی۔ مذہبی فکر کو عام کرکے سیاسی اصولوں کی بیل انھیں پختہ دھاگوں پر چڑھائی جائے تو معاشرہ امن و سلامتی کا ضامن و حامل بن جاتا ہے۔ اپنے لیے امیر کا انتخاب ایک بڑی ذمہ داری ہے اور یہ اس وقت تک حقیقی رنگ اختیار نہیں کر سکتی جب تک لوگوں کو مذہبی فکر سے آگاہی نہیں ہو گی ورنہ تو جو امیر چنے جائیں گے وہ حاکم بنیں گے وہ قوم کے خیر خواہ نہیں ہوں گے۔ جمہوریت بنیادی طور پر جمہور کے حقوق کا دفاع ہے۔ اس لیے کہ جمہور کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ ابراہیم لنکن نے جمہوریت کی تعریف مختصر الفاظ میں یوں بیان کی:
"To The People, For the People By The People".
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جمہوریت انسانی شعور کی ایک عمدہ نظیر ہے۔ جب سوچ بیدار ہوتی ہے تو اپنی رائے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ جمہور کا شعور جمہوریت کا حسن ہے اگر جمہور با شعور نہ ہوں گے تو جمہوریت کا حسن نکھر نہ پائے گا۔ جمہور کا جاگنا، اپنے حقوق کو سمجھنا لازم ہے۔ بقول اقبال:
اُٹھو مری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے درو دیوار ہلا دو
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

آمرانہ مزاج کا خاتمہ ہی جمہوری اقدار کا فروغ و فلاح ہے مگر یہ فلاحی سوچ اپنے لیے پختہ راہ کا انتخاب اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک وہ دین کی راہ اختیار کرکے اس کے بنائے ہوئے اعلیٰ و مقدس اصولوں کو زندگی کا شعار نہ بنا لے۔