ہوم << انصر منیر:منفرد لہجے کا شاعر- ڈاکٹرسیف ولہ رائے

انصر منیر:منفرد لہجے کا شاعر- ڈاکٹرسیف ولہ رائے

عصرِ حاضر کی اُردو غزل اگرچہ اب ایک نئے عالمی تناظر میں ہے۔نئے اسالیب، وسعتوں اور فکر و احساس کی نت نئی جہات سے اپنا دامن وسیع تر کر رہی ہے، لیکن عمدہ غزل کی تخلیق کے لیے فکر کی گہرائی اور تخیّل کی وسعت سے قطع نظر، جس قسم کا ماحول اور فضا درکار ہوتی ہے، یعنی جذباتی و ذہنی خلفشار، خارج سے گریز پائی اور داخل سے رجوع، وہ نفسیات و کیفیات پاکستانی سوسائٹی میں بالخصوص، گزشتہ کئی دہائیوں سے جو صُورت ظاہر ہوتی رہی ہے، اس میں شعرا نے تخلیق پانے والی غزل کو اپنے مزاج اور موضوع کے لحاظ سے احساس کی گہرائی، تجربات کی پختگی اور پُر درد لہجے سے روشناس کروایا ہے اور یہی کیفیات انصر منیرکی غزل میں جھلکتی ہیں۔
اگرچہ غزل آج بھی اپنی دِل کشی، معیار کے لحاظ سے کم آموز، ناپختہ شاعروں کی تخلیقات میں بھی دو ایک غزلوں یا چند شعروں کی حد تک وقتی جاذبیت اور کبھی کبھی ایک آدھ شعر کی حد تک دیرپا اثر کی صفات سے آراستہ ہے، لیکن چند شعراء اپنی عُمر اور تجربے سے کہیں زیادہ تخلیقی تنوّع، پختگی اور گہرائی کا ثبوت دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔ ایسے ہی چند ایک شاعروں میں انصر منیر سرِ فہرست ہیں
انصرمنیر دور جدید کےماہر قانون دان, محقق, نقاد، استاد اور معتبر شاعر ہیں۔ عام فہم اور سادہ شاعری کی وجہ سے ان کو سہلِ ممتنع کا شاعر سمجھا جانے لگا ہے۔ چھوٹی بحروں میں ان کے کئی ایک اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ غزل کی کلاسیکی روایت میں وہ پیروان میر، مومن ،فیض، ناصر ، عدم ،جون ،فراز اور عباس تابش دیکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے غزل ملاحظہ کیجیے۔
سسکیوں کی صفائی دیتا ہوں
میں جو ہنستا دکھائی دیتا ہوں

ویسے ہوتا نہیں محبت میں
تم کہو تو رہائی دیتا ہوں

میں ہوں بیتے سمے کا پچھتاوا
بعد میں بھی سنائی دیتا ہوں

تم کو جو شوق ہے محبت کا
آگ تم کو پرائی دیتا ہوں

ویسے مشکل ہے مجھ تلک آنا
تم کو خود تک رسائی دیتا ہوں

چہچہاہٹ سے جی بہلتا ہے
جنگلوں میں دہائی دیتا ہوں

مجھ کو لا دو وہ بچپنہ انصر
عمر بھر کی کمائی دیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
انصر منیر جدید غزل کے نوجوان شعرا میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ نظم نگاری بھی ان کی شہرت کا ایک بنیادی حوالہ ہے۔ ان کی شاعری میں شریک موضوعات انتہائی حساس نوعیت کے ہیں، جو انسان کے داخلی اور خارجی معاملات سے مکالمہ کرتے ہیں۔ احتجاجی کیفیات کے ساتھ ساتھ رومانویت اور جمالیات کے نقوش ان کی شاعری میں واضح محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
آئے دن کی بدلتی ادبی و سیاسی فضا میں تازہ رحجانات، رویّوں اور تحریکوں کے باعث نئے اسالیب یا اظہار کے نئے سانچے جگہ بناتے رہتے ہیں، شعری لفظیات میں نئی نئی معنویتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، جن کے نتیجے میں احساس و اظہار کے نئے تجربات بھی سامنے آتے ہیں۔ انہیں تجربات واحساسات کو لیکر سماجی مسائل کو شاعری میں اجاگر کرنے والے عصرِ حاضر کے چندایسے شعراء ہیں، جن کی نمائندگی انصر منیر کر رہیے ہیں،
شعر دیکھیے۔
میں نے غربت کو لوریاں دیتے
جھونپڑی کا دیا بجھایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اس حوالے سے پرانے اور مسلمہ اسالیب سے استفادے کا رحجان بڑھ گیا ہے اور قدیم روایاتِ شعری سے اخذ و انجذاب بھی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انصر منیر شاعروں کے اس مختصر گروہ میں ایک کُھلے اور نمایاں مقام پر دیکھائی دیتے ہیں ، جو کلاسیکی غزل کے وسیع تر مطالعے سے ذاتی اور عصری احساسات کی حامل شعریات کے لیے نئے سانچے، نئی لفظیات اور نئی روشیں تلاش کرتے ہیں۔
محبوب سے قربت کس کو پیاری نہیں ہوتی، غزل کی صنف اسی ناتے سے غزل کہلاتی ہے، ولی دکنی سے لے کر غالب تک اور غالب سے لے کر فیض تک اور بعد میں آنے والے شعراء سبھی اس کے اسیر نظر آتے ہیں، محبوب سے قرب نہ ہو تو اس کا تصور کر لیا جاتا ہے جیسے غالب کہتے ہیں:
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناںکیے ہوئے
اور مومن فرماتے ہیں:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اور اب دیکھیے اس بارے میں ان کے بہت بعد کا شاعر انصر منیر کیا کہتے ہیں :
میں چاہتا ہوں اکیلا کہیں ملوں تم سے
میں چاہتا ہوں زمانے کی آنکھ لگ جائے
۔۔۔۔۔۔
دن کو دیتا میں تجھے پھول کئی رنگوں کے
شب کو ملتے تو تجھے رات کی رانی دیتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
مری آنکھ کے قفس میں کوئی خواب جل رہا ہے
تری یاد کا ستارہ مرے ساتھ چل رہا ہے

مجھے جانتا ہے بہتر مرے ہجر سے ہے واقف
مری نیم شب کا ساتھی وہ جو ایک پل رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد" میسر "کہیں نہ کھا جائے
تمھارے بعد کسی سے بھی میں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رومانویت اُن کا خاص چلن ہے،مگر وہ اختر شیرانی کی طرح کے رومانوی شاعر نہیں ہیں۔اُن کی رومانویت میں تجربے کی ایسی چاشنی ہے جو اُن کے ہم عصروں میں اِس طرح سے نہیں ہے کہ قاری کو بھی اِس چاشنی کی لذت سے بہرہ ور کردے۔انصر منیر کی رومانویت نے ٹھوس تجربے سے استعارے اور علامت تک کے سفر کئے ہیں۔اِس رومانویت نے جمال پسندی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔اُن کی جمال پسندی کا ایک اہم عنصر نفاست پسندی ہے۔کہیں پر نفاست اور جمال پسندی سفید پھولوں کی بارش برساتی ہے۔ کہیں فضاﺅں میں انگڑائیوں کے مناظر بکھیر دیتی ہے، کہیں تھرتھراتا ہوا سیماب بن جاتی ہے ،کہیں سانسوں کی مہک، آتشیں رُخ کی نمی، شبنمی ہونٹوں کی دہک، سِمساتے ہوئے سینے کا خروش بن جاتی ہے۔اِس رومانویت نے جمال کے پیکروں کو کسی ایک نام، لفظ یا Signifire کا محتاج نہیں رہنے دیا۔ رومان اور جمال پسندی نے نفاست اور لذت کے کئی عنوان پیدا کردئیے ہیں۔ ایکSignifire کے کئیSignifieds ہوگئے ہیں۔ کبھی محبوب لبوں کی لالی ہوگیا۔کبھی چاند کبھی صدائے عشق ،کبھی ستارہ اور کبھی نیم شب کا ساتھی ہوگیا۔شعر دیکھیے
میں ترے ہاتھ کس طرح آؤں
میں کسی سانولی پہ مرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔
جب محبت سے گال کھینچتا ہوں
مجھ سے کہتی ہے بدتمیز نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں غیر ضروری ہے یہ دوری انصر
دن میسر ہو تو پھر رات نہیں لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خود کو مسمار کر رہا ہوں میں
تم بھی ملبے سے دل اٹھا لینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لَے تو بالکل یار کسی سرگم کی ہے
آج گلی میں اسکی چوڑی کھنکی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس محبت میں اک تضاد نہ رکھ
بھولنا ہے تو مجھ کو یاد نہ رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصر منیر، جنہیں کبھی شاعر تو کبھی حسن و عشق کا مداح سرا کہا جاتا ہے، کہیں انقلاب کا منتظر تو کبھی ماضی کا نوحہ گر، کہیں انا سے اکڑا سر پھرا عاشق تو کہیں سب کچھ بھلا کر دوستی کے لیے پہل کرتا شاعر کہا جاتا ہے۔
ہاں ضرورت ہے تیری یار مجھے
آ کے کھڑکی سے پھول مار مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصر منیر کو فطرت کی آغوش میں بڑا سکون ملتا ہے فطرت اور اس کے مناظر و مظاہر کے ساتھ ان کارشتہ محض عشق و شباب ہی کے حوالے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کی رعنائی اور اس کے مظہراتی حسن و جمال کا ان کی شاعری میں اپنا ایک مقام ہے بادل، بہار، سبزہ، پھول، برسات اور گاوں کے مناظر خاص طور پر انہیں متاثر کرتے ہیں
میں محبت کی چھاؤں والا ہوں
پاس بیٹھو میں گاؤں والا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
سفر صعوبت میں کٹ رہا ہے
نظر سے گاؤں جو ہٹ رہا ہے
مجھے مکمل عزیز ہے وہ
مگر وہ حصوں میں بٹ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
انصر منیر کی شاعری کے موضوعات متنوع، گوناگوں ، ہمہ گیر و ہمہ جہت ہیں۔ ان کی شعری کائنات کے موضوعات میں انتظار دھوکہ، زندگی ، موت ، کائنات ، زمانہ ، فطرت کے گہرے حقائق، جبر و اختیار کے خلاف آواز ، مقام ِ آدمیت ، رویوں کی بےحسی ، اپنے مقصد سے گہری وابستگی ، رسول پاکﷺ کی عظمت و رفعت کا اقرار، سماجی بےگانگی ، احساسِ مجبوری و بےقدری،عصری مسائل لاحصلی، دردوغم، احتجاج ، انحراف ، غمِ دوراں ،غم جاناں، غم ِ کائنات ، اعتراف ِ حقیقت، اخلاقی اقدار کی پامالی، مادیت پرستی سے نفرت اور محبت و یگانگت کا فروغ ہیں۔
انہوں نے اپنی شاعری میں مختلف النوع تشبیہات، استعارات، اشارات، کنایات، محاورات، علامات، تلازمات، محاکات و پیکرات کا استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری معنی آفرینی، مضمون آفرینی، جدت ادا، طرز اور شوکتِ لفظی، بندش و چستی اور ندرتِ بیان کا ایک بحرِ بےکراں اپنے اندر سموۓ ہوۓ ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو ہر لمحہ نئی و منفرد باتوں کی کھوج میں رہتے۔ غزل دیکھیے

ہم تو جگنو ہیں جو خیرات نہیں لیتے ہیں
ہم چراغوں سے ہدایات نہیں لیتے ہیں

جس نے رستے میں ہمیں چھوڑ دیا٫ چھوڑ دیا
ایسے کم ظرف کو تو ساتھ نہیں لیتے ہیں

ہم تجھے یاد کریں گے تو کرو گے تم بھی
یوں کرایے کے تو جزبات نہیں لیتے ہیں

وہ نہ سمجھے کہ ذرا نرم ہؤے جاتے ہیں
اب تو دل پر بھی کوئی بات نہیں لیتے ہیں

جان بخشی ہے اگر ظلم کی بیعت کر لو
یہ سہولت ہے جو سادات نہیں لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور غزل سے لطف اٹھائیے

ہر سو صدائے عشق ہے اور تم نہیں ملے
حیرت کدہ ء عشق ہے اور تم نہیں ملے

میں تو جنابِ عشق کا ادنیٰ غلام ہوں
تم کو دعائے عشق ہے اور تم نہیں ملے

باغء طلب میں مجھ کو تمھارا گماں ہوا
میں ہوں قبائے عشق ہے اور تم نہیں ملے

تم سے شفا طلب کو تو ذرہ بھی کم نہ ہو
خاکء شفائے عشق ہے اور تم نہیں ملے

مجھ سا بھلا جہاں میں کوئی نامراد ہے
مجھکو یہ ہائے عشق ہے اور تم نہیں ملے

انصر تجھے میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہر جگہ
مہماں سرائے عشق ہے اور تم نہیں ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف بھی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں، کسی پر نچھاور ہوجایا کرتے ہیں اور کسی کی ریاضت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ وہ خوش نصیب تخلیق کار ہوتے ہیں، جن کے لیے حروف، معنی و متن کے لیے اپنی تاثیر وقف کردیتے ہیں۔ انصر منیرایسے ہی واحد متکلم شاعر ہیں، جن کے ہاں رومان کی علامتوں سے لے کر، مزاحمت کے استعاروں تک، ہجر کے مراحل سے وطن پرستی کی فکری اساس تک، معنویت کے کئی در وا ہوتے تھے، اُنہیں حروف اور موضوعات کی کوئی قلت نہیں، وہ اپنی شعری روایت اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہیں ۔
تجھکو اوروں میں تو تقسیم نہیں کر سکتا
میں تری یاد کی تفہیم نہیں کر سکتا
دل یہ کہتا ہے کہ لمحوں کو مقفل کر لوں
میں مگر وقت کی تجسیم نہیں کر سکتا
ایک اور شعر دیکھیے
ہم زمانے سے نہ ہارے ہوتے
تم جو بالفرض ہمارے ہوتے
خیال آفرینی ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔۔۔
بس ترے لوٹ کے آنے کی نشانی دیتا
کوئی ہوتا جو مرے ضبط کو معانی دیتا

دن کو دیتا میں تجھے پھول کئی رنگوں کے
شب کو ملتے تو تجھے رات کی رانی دیتا

جب میں کہتا کہ محبت نہیں کرتے مجھ سے
کتنا چالاک تھا وہ موڑ کہانی دیتا

تشنگی دیکھ کے میری نہ گریزاں ہونا
ایک دریا ہی سمندر کو ہے پانی دیتا

اس نے جانا تھا تو پھر روٹھ کے جاتا انصر
کچھ تو اس درد کو سہنے میں گرانی دیتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصر منیر نے جس بے نظیر انداز میں والدکی عظمت کو اپنے شعری پیرائے میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے،بلاشبہ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اپنے والد سے ہمکلام رہو
یوں وہ بوڈھا جوان رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والد جیسی عظیم المرتبت
ہستی کی بے ریا محبتوں،رفعتوں اور پاکیزہ جذبوں کی سچی روداد کو اپنے اندر سموئے ہوئے انصر منیر کے اس شعر کا مرتبہ بھی گویا وہی ہے جو مومن خان مومن کے اس شعر کا ہے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

گو معنی و مفہوم اور اپنی ہیئت کے اعتبار سے مذکورہ دونوں اشعار جتنے بھی مختلف ہوں،لیکن دونوں اشعار کا فکری اور شعری مقام بہت بلند و بالا ہے۔
انصر منیر اُردو غزل کی ایک با اثر اور معتبر آواز ہیں۔ انصر منیر کی شاعری کو غور سے پڑھا اور آوازکو سنجیدگی سے سنا جارہا ہے۔ انصر منیر نے جہاں ایک جانب احتجاجی، انقلابی، رومانی اور علامتی شاعری کی وہیں دوسری جانب انھوں نے ایسے اشعار بھی کہے جن کی بدولت شعری ادب میں ان کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ در اصل یہ اشعارہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی بنے ہیں۔ انقلابی، احتجاجی او ر رومانی شاعری کے ذریعے انصر منیر اُردو شاعری میں الگ مقام ومرتبہ کے متقاضی ہیں۔