ہوم << افغان طالبان کا پاکستان پر کیا موقف ہے؟

افغان طالبان کا پاکستان پر کیا موقف ہے؟

رپورٹ: شبیر احمد

افغانستان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب مجاہد نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے بارے میں کچھ ایسا اظہار خیال کیا ہے جس کے بعد پاک افغان دوستی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ انٹرویو میں ان کی باتوں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹی پی کے علاوہ اور بھی کئی مسائل حل طلب ہیں۔ مسائل کے علاوہ کئی ایسے امور ہیں جس پر افغان طالبان کو شدید تحفظات لاحق ہیں۔دوسری جانب طالبان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کو بھی پاکستان میں تشویش کی نگا ہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

"امریکی ڈرونز پاکستان سے افغانستان کی فضائی حدود میں داخل ہورہے ہیں"۔
پچھلے سال 31 جولائی کو امریکہ نے ایک ڈرون حملے کے ذریعے کابل میں مقیم القاعدہ کے اہم رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کردیا تھا۔ امریکی ڈرون طیارے کی افغانستان کی فضائی حدود میں داخلے کے حوالے سے سوال پر افغان وزیر دفاع نے کہا کہ "میں نے پہلے ہی اس حوالے سے معلومات سامنے رکھیں تھیں۔میں نہیں چاہتا کہ دوبارہ ایسا بیان دوں، جس سے تعلقات خراب ہوں"۔ یہ بات واضح رہے کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے وقت ملا یعقوب نے کہا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق امریکی ڈرونز پاکستان سے افغانستان کی فضائی حدود میں داخل ہورہے ہیں۔

"ٹی ٹی پی کو روکنا پاکستان کی ذمہ داری ہے"
پاکستان کو اس وقت افغان طالبان سے شکایت ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے۔ ٹی ٹی پی جیسے حساس موضوع پر دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطحی وفود کے مزاکرات بھی ہوتے رہے ہیں۔ وزیر دفاع ملا یعقوب سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے حملوں کے بعد افغانستان میں اس کی موجودگی کا الزام لگاتا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ " ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر حملوں میں ملوث ہے، سرحد پر پاکستانی فورسز پر کوئی حملے نہیں ہوتے۔ حملہ کرنے والے اگر اسلام آباد تک پہنچ سکتے ہیں تو انہیں روکنا پاکستان کی ذمہ داری ہے"۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان کے خلاف سرگرم ہوتی تو سب سے پہلے سرحد پر حملوں میں ملوث نظر آتی۔

"ڈیورنڈ لائن ایک فرضی لکیرہے"
ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان روز اول سے تنازع کی صورت موجود ہے۔کابل حکومت اس کو فرضی جبکہ اسلام آباد اس کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں طالبان کی پالیسی بھی وہی ہے جو پچھلی حکومتوں کی تھی۔ڈیورنڈ لائن سے متعلق سوال پر ملا یعقوب کہتے ہیں کہ ہم اس کو ایک فرضی لکیر سمجھتے ہوئے تسلیم نہیں کرتے۔ اس مسئلے کو ہم مناسب وقت میں پاکستانی حکام کے سامنے اٹھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ کب اس مسئلے کو اٹھایا جائے۔

نجی ٹی وی سے انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان طالبان حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے دنیائے عالم کے سامنے اس کا مقدمہ رکھتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمارا نمائندہ بن کر عالمی سطح پر نمائندگی کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا عمل تو اس لئے حیران کن ہے کہ نہ ہم نے پاکستان کو اس کام کا کہا ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ اگر (پاکستان) اس طرح کرتا ہے تو اس کا راستہ روکنا چاہیئے۔
‎‏
‎‏انٹریو کے آخر میں پاکستان سے متعلق سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ایک اچھا پڑوسی ملک ہے؟ جواب میں ملا یعقوب کہنے لگے کہ پاکستان ایک اچھا پڑوسی ہے اگر وہ آزاد، بااختیار اور مستحکم افغانستان کو پاکستان کے مفاد میں تسلیم کرے۔

"طالبان اب پاکستان کے محتاج نہیں ہیں "
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر محمد عمر داؤدزئی نے کہا ہے کہ پاکستان کی ایک خاص صورت حال ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب سے طالبان تحریک شروع ہوئی ان کے آپس میں خاص تعلقات تھے۔ وہ رابطے آج بھی ہیں لیکن پاکستان کی طالبان سے جو توقعات تھیں، مثال کے طور پر ٹی ٹی پی اور دیگر مسائل کے حوالے سے وہ پوری نہیں کی گئیں۔

افغانستان کے سابق وزیر داخلہ عمر داؤد زئی نے کہا کہ ’پاکستان بھی مایوس دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان نے بھی دباؤ ڈالنے کے ذرائع کھو دیے ہیں۔ طالبان اب پاکستان کے محتاج نہیں ہیں۔ البتہ دونوں بعض معاملات میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ پاکستان کا دباؤ اب اہم نہیں رہا۔‘