پاکستان کو آنے والے سالوں میں قومی مقصد کے احساس کی ضرورت ہے اگر اسے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے تعلیم، کھانا کھلانے، روزگار فراہم کرنے اور سماجی انصاف فراہم کرنے کے اہداف کو حاصل کرنا ہے۔ ایک قومی پالیسی کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔اس کے لیے وسیع پیمانے پر ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے جو تاریخی طور پر تصادم اور قلیل مدتی سوچ کی وجہ سے پنپ سکے۔تاریخی حوالے سے بھارتی فوجی تسلط کے خلاف مزاحمت کے علاوہ کسی پالیسی میں کوئی تسلسل نہیں رہا۔
تبدیلی اور سیاسی عمل کے کامیاب ہونے کے لیے، جمہوریت اور علاقائی سلامتی کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف اور ترقی کی پائیداری کے درمیان اب تک سیاسی طور پر تکلیف دہ روابط کو دور کرنا ضروری ہے۔جس کیلئے سارے سٹیک ہولڈرز کا ایک پیج پر ہونا انتہائی اہم ہے بلکہ اسکے بغیر ناممکن ہے۔
یہ بحث ایک قومی اتفاق رائے کا باعث بن سکتی ہے جس کا مقصد پاکستان کا رخ موڑنا ہے، جسکی بنیاد ماضی کی نسبت زیادہ جامع اقتصادی ترقی کی پالیسی اور زیادہ وسیع سیکیورٹی پالیسی ہوگی۔
اقتصادی حکمت عملی اس بات کو تسلیم کرکے بنائی جائے کہ اس سے پہلے کی تیز رفتار توسیع پاکستان کو درمیانی آمدنی والے درجے تک پہنچانے میں ناکام رہی تھی کیونکہ اس نے انسانی ترقی کو نظر انداز کیا تھا، پرانی قلیل مدتی پالیسیز کو عارضی طور پر پڑوسیوں پر برتری حاصل تھی۔
پاکستان کے پاس گلوبلائزیشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے درکار ہنر مند انسانی سرمائے کی کمی ہے.
مستقبل کے نمو کے ماڈلز کو بین الاقوامی مسابقت کے ساتھ ساتھ انصاف اور سماجی ہم آہنگی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدم مساوات کو کم کرنا ہوگا. سلامتی پالیسی اس بات کو تسلیم کرکے بنائی جائے کہ اسلحے کی دوڑ، اسلامی پراکسیز کے استعمال، اور جنوبی ایشیا میں بین الاقوامی طاقتوں کی لڑائی لڑنے کے ذریعے ہندوستان کو متوازن کرنے کی ماضی کی کوششیں، فرقہ وارانہ لڑائی،معاشی انحصار اور جمہوریت کو کمزور کرنے کیوجہ سے مہنگی پڑی ہیں۔ مستقبل میں قومی سلامتی کی پالیسیوں کی تعریف صرف روایتی اور جوہری قوتوں کے لحاظ سے نہیں کی جانی چاہیے بلکہ خوراک، پانی اور توانائی کی حفاظت، جرائم سے تحفظ، یہ سب کچھ ریاست کی جانب سے ماحولیاتی استحکام اور سیاسی طاقت کے تناظر میں فراہم کیا جانا چاہیے۔ اگلی دو تین دہائیوں میں، بھارت سے لاحق سیکورٹی خطرات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ انڈیا ایک علاقائی اور عالمی اقتصادی قوت بن جائے گا۔جس سے اس کی مسلح افواج کو تقویت ملے گی اور پاکستان کی روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے توازن قائم کرنے کی کوشش کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
آبادی میں اضافے کیساتھ یہ صورت حال بھی غیر متوقع حالات پیدا کرسکتی ہے۔ بدترین صورت حال یہ ہوگی کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو جسکی وجہ سے بنیادی اصلاحات مکمل کرنے سے پہلے حالات اس نہج پہ پہنچ جائیں گے جنہیں اس کی کمزور معیشت بالآخر سہارا نہیں دے پائیگی۔
تبصرہ لکھیے