ورلڈ ڈویلپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 28%خواتین اپنی صلاحیتوں کے اظہار یا اپنے گھرانوں کو مالی سپورٹ دینے کیلئے مختلف ملازمتیں یا بزنس کر تی ہیں جو ایک حوصلہ افزاء پہلو ہے لیکن اس رپورٹ کا حوصلہ شکن پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کی 72%خواتین کا عملی میدان میں کوئی کردار نہیں ہے اور وہ محض خانہ داری تک محدود ہیں یا سماجی سطح پر ناسازگار حالات انھیں گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ورکنگ وومن کی حوصلہ افزائی کم ہی کی جاتی ہے اور جو خواتین کسی مجبوری یا شوق سے کام کر رہی ہیں انھیں ہمارے بانجھ اور گٹھن ذدہ معاشرے میں ناقابل موافق و غیر دوستانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس حوالے سے کافی قانون سازی کی ہے لیکن آگاہی و شعور کی کمی کے باعث ورکنگ وومن کوگوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی طورپر صنفی امتیاز میں 157ممالک کی جاری کردہ رینکنگ میں ہم 121ویں نمبر پر ہیں۔دوسری طرف آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 (2) کے مطابق ملک میں صنفی امتیاز کے ہر سطح پر خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان کی ہر خاتون کو آئین پاکستان میں اپنے تحفظ کیلئے دیے گئے حقوق کو پڑھنے اور متعلقہ اداروں سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ہماری اکثریت جن میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں ورکنگ ویمن کو وہ عزت نہیں دیتے جس کی وہ مستحق ہیں اور قدم قدم پر انھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو افسوسناک ہے۔ورکنگ وومن کے کے بارے میں ہمیں کم ظرفی پر مبنی اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر ایسی خواتین جوناگزیر معاشی پریشانیوں کے سبب اپنے گھرانوں کی کفالت کیلئے کام کرتی ہیں ہمیں ان کا احترام و عزت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے۔کچھ عرصہ قبل موٹر وے پر دوران سفر ایک بس ہوسٹس کے ساتھ کچھ بظاہر پڑھے لکھے نوجوانوں کا نازیبا سلوک دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا لیکن بس میں سوار بہت سے مسافر ایسے بھی تھے جنھوں نے ان نوجوانوں کی بھر پور مذمت کی۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ بھی کسی کی بہنیں اور بیٹیاں ہیں اور اکثر کسی ضرورت کے تحت کام کر رہی ہوتی ہیں۔اگر کوئی ہماری بہن یا بیٹی سے اس طرح بدسلوکی سے پیش آئے تو کیا ہمیں اچھا لگے گا؟ یقیناً نہیں تو پھر ہمیں دوسروں کی عزت کو بھی مال مفتوحہ نہیں سمجھنا چاہئے۔سوشل اسٹیٹس سے بالاتر ہو کر تمام انسان مساوی طور پر عزت و احترام کے مستحق ہیں اور خواتین سے حسن سلوک تو ہماری دینی تعلیمات کا بھی حصہ ہے۔
پاکستان میں ورکنگ خواتین کو بہت سی سماجی، ثقافتی اور مذہبی بندشوں کا سامنا ہے۔غلط مذہبی تشریحات کے باعث بچپن سے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ عورت کی جگہ چار دیواری کے اندر ہے اور وہ کسی نا محرم سے بات نہیں کر سکتیں۔غلط فہمیوں پر مبنی ایسی روایات آج بھی ہمارے معاشرے میں ہیں اور یہ رویہ صرف مسلم معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ اگرچہ اب بڑے شہروں میں تبدیلی آرہی ہے لیکن اب بھی ورکنگ خواتین کو نہ صرف ٹیڑھی نظروں سے دیکھا اور گھورا جاتا ہے بلکہ ان کے بارے میں نازیبا کلمات بھی کہے جاتے ہیں اور ایسا کرنے والوں میں ان کے دفتری مرد کولیگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ بہرحال ایک مثبت تبدیلی جو دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اب ہم نے خواتین کو بھی پروفیشنل کے طور پر قبول کرنا شروع کر دیا ہے اور بہت سے ایسے شعبہ جات ہیں جہاں شائستگی اور ذمہ دااری کے احساس کے سبب خواتین امیدواروں کو ملازمت کیلئے ترجیح دی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے کے مرد حضرات کے ورکنگ خواتین کے بارے میں تصورات ابھی بھی بہت فرسودہ ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے گھرانے کی کفالت کرنے والی خواتین اپنے خاندان کا فخر ہوتی ہیں کجا یہ کہ اپنے منفی رویوں سے ہم ان کی حوصلہ شکنی کریں۔
ورکنگ ویمن کی زیادہ تعداد ایجوکیشن اور ہیلتھ کے شعبوں سے وابستہ ہے۔ایجوکیشن کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ مسائل کا شکار یہی خواتین ہیں جنھیں محکمہ تعلیم کے مرد کلرک اور افسران مختلف حیلے بہانوں سے سب سے زیادہ پریشان کرتے ہیں جس کی ایک مثال بہاولنگر کے کسی سرکاری سکول کی معلمہ کی طرف سے کچھ روز قبل ملنے والی ایک ای میل سے لگایا جاسکتا ہے جس کو پڑھ کر مجھے انتہائی افسوس ہوا۔ اس معلمہ نے امتیازی نمبروں کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا ہو اہے جبکہ ملازمت کیلئے کئی سالوں کی تگ دو کے بعد بالآخر انھیں ایک ایسے سکول میں ملازمت ملی جو بارڈر کے قریب واقع ہے اور اس علاقے میں ٹرانسپورٹ کیلئے اکا دکا جانے والے رکشوں کے علاوہ کوئی سہولت نہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ کئی رکشے بدل کر بیس کلومیٹر سے زائد سفر کر کے جب وہ سکول پہنچتی ہیں تو بعض اوقات پانچ دس منٹ کی تاخیر بھی ہو جاتی ہے لیکن اس دوران مانیٹرنگ کرنے والا میٹرک پاس اس کی تاخیر سے حاضری کی رپورٹ کر دیتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مانیٹرنگ والے اسی راستے سے جاتے ہوئے معلمہ کو دیکھ کرمحض دق کرنے کیلئے اپنی موٹر سائیکل کی رفتار تیز کر کے پہلے پہنچ جاتے ہیں تاکہ وہ غیر حاضری کی رپورٹ دے کر اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اسی طرح ویڈ لاک (wedlock)پالیسی موجود ہے لیکن خواتین ورکروں کو تبادلے کیلئے رسوا اور خوار کیا جاتا ہے۔خاص طور پر بااثر طبقات سے تعلق نہ رکھنے والی خواتین کو ایسی صورتحال میں مجبوراً ملازمت کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔جہاں کام کرنے والی خواتین کو مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے وہاں کالج اور یونیورسٹی کی طالبات کو بھی کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر جن اداروں میں مخلوط نظام تعلیم ہے وہاں آئے روز انہونیاں سننے کو ملتی ہیں اور ساتھی طلباء کے علاوہ اساتذہ کی طرف سے بھی طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں اگرچہ ایسے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔اکثر خواتین بھی عزت کے رسوا ہونے کے ڈر سے ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ خاموشی ہی بعد ازاں ان کے گلے کا طوق بن جاتی ہے۔انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ خاموشی توڑ کر اپنے جیسی بہت سی خواتین کو رسوا ہونے سے محفوظ کر سکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ ترورکنگ ویمن کو مردوں کے مقابلے میں کم معاوضے کا ملنا، ملازمت میں صنفی امتیاز، جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے قبیح واقعات، نجی زندگی اور ملازمت میں توازن، معاشرے میں خواتین بارے تعصب پرمبنی عمومی منفی تاثرات، ادارہ جاتی سیاست، شادی شدہ خواتین کے شوہروں کی طرف سے شکوے شکایات، لوگوں کی باتیں،ملازمت کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کو بھی نبھانے، اپنی ہی صنف میں موجود کچھ کالی بھیڑوں کے اطوار،مرد ساتھیوں کی جانب سے انا پرستی کے اظہار اور حاسدانہ رویوں جیسے چیلنجز کا سامنا درپیش ہے۔ بنظر غائر ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پرخواتین کے بارے میں بالعموم اور ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں بالخصوص اپنے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی آبادی کے ایک معتدبہ حصے کو عضو معطل بنا کر ہم سماجی ترقی کے خواب کی تکمیل نہیں کر سکتے۔پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے والی یہ28%ملازمت پیشہ خواتین ہمارا فخر ہیں اور ہمارے حسن سلوک کی مستحق ہیں۔
تبصرہ لکھیے