ابتدائے آفرینشِ سے انسان امن کا داعی رہا ہے اور اس کی تبلیغ و ترویج بھی کرتا رہا ہے۔ مگر انسانی فطرت میں بگاڑ کا عنصر بھی شامل ہے جو امن و آشتی کی راہ میں رکاوٹ حائل کرتا ہے. اگرچہ امن کسی معاشرے کی بقا اور بگاڑ معاشرے کی فنا کی دلیل ہے لہذا زمین پر سلسلۂ حیات برقرار رکھنے کے لیے شانتی اشد ضروری ہے۔ جس کے لیے ہر دور میں کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔
جب انسان ریاست کے بغیر رہتا تھا تو امن طاقت کے زور پر قائم کیا جاتا تھا۔ قبائلی دور میں یہ ذمہ داری قبیلے کے سردار کے سپرد کردی جاتی اور وہ طاقت کا سرچشمہ ہوتا تھا. لیکن جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا ویسے ہی معاشرے میں استحکام آتا گیا مگر جرائم ختم نہ ہوئے.
حکومت اور ریاست کے قیام میں آنے کے بعد قوانین بنائے گئے جس کی وساطت سے امن قائم کیا جانے لگا۔ یہ قوانین ہر دور میں مختلف رہے ہیں۔ یونانیوں سے رومیوں تک اور مسلمانوں سے انگریزوں تک قوانین تو بدلتے رہے مگر مقصد قیامِ امن ہی تھا تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ ان قوانین کی خلاف ورزی پر سزائیں دی جاتی تھیں اور سزائیں بھی ہر دور میں بدلتی رہتی ہیں۔ موجودہ دور میں سزاؤں کے لئے جیلیں موجود ہیں۔ جس کا الگ محکمہ جیل خانہ جات اور پولیس ہے۔ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جیل کے ساتھ ساتھ سنٹرل جیل بھی موجود ہے جہاں اسیر قید کیے جاتے ہیں۔
لاہور کی سنٹرل جیل کوٹ لکھپت کے مقام پر واقع ہے جو اپنی تاریخ اور داستان رکھتی ہے۔ جس کی زیارت دو طریقوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جرم کرکے یا مطالعاتی دورے سے۔ مگر خاکسار کو مؤخرالذکر کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ دورے کا آغاز ویٹنگ ہال سے ہوا جو اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ ویٹنگ زون کی زیر نگرانی ہے جہاں خواتین اور مردوں کے انتظار کے لیے علیحدہ علیحدہ جگہ دستیاب ہے.اسی کے ساتھ جیل کی واحد کنٹین موجود ہے جس کا انچارج حوالدار ہے۔ جو قیدیوں تک ان کا منگوایا گیا سامان پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ قیدیوں کی لواحقین سے ملاقات کے لیے'بیچز'بنتے ہیں اور ملاقات کے مخصوص دن ہوتے ہیں۔ خواتین قیدیوں سے صرف قریبی رشتہ دار ہی مل سکتے ہیں۔ لواحقین کا اسیران کے لیے لائے گئے سامان کو مخصوص انداز سے وصول کنندہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ دودھ اور دہی مبینہ منشیات کی ملاوٹ کے باعث منع ہے۔
ویٹنگ حال سے جیل کے اندر داخلے کے دوران میں تلاشی لی جاتی ہے اور موبائل فون رکھ لیا جاتا ہے۔ جیل کے اندرونی حصے میں داخلے کی اجازت کیلئے بازو پر مہر لگائی جاتی ہے. اس آزمائش سے گزرنے کے بعد کچن کمرہ جات دیکھنے کا موقع ملا۔ جہاں قیدیوں کے لیے کھانا بنایا جاتا ہےاور تقسیم کے طریقے کے ساتھ کھانے کا مینیو بھی موجود ہے۔ بیرک اور سیل کے قریب سے گزرتے ہوئے 'انڈسٹریل اینڈ ووکیشنل سینٹر' تک کا سفر بڑا بوجھل سا معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس سفر کے دوران میں راستے میں دیواریں فن پاروں سے مزین تھیں۔جن پر قرآنی آیات اور اقوال زریں لکھے ہوئے تھے۔ انڈسٹریل اینڈ ووکیشنل سنٹر، مین لائبریری , فٹنس کلب, کارپینٹر سنٹر اور اسلامک سنٹر پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں قیدیوں کے علاج کے لیے کلینکل لیب بھی موجود ہے جو سابق سینیئر وزیر عبدالعلیم خان نے بنائی تھی۔ جہاں میڈیکل آفیسر موجود ہوتا ہے۔ مہینے میں دو بار ٹیمیں قیدیوں کے چیک اپ کے لیے آتی ہیں اور جن بیماریوں کا علاج وہاں نہیں کیا جاسکتا ان کے سیمپل لے کر جناح اور جنرل ہسپتال بھیج دیئے جاتے ہیں.
قیدیوں کو بلا تفریقِ عقیدہ و مذہب عبادات کی مکمل آزادی میسر ہے بیرک اور بلاک میں مساجد اور چرچ بھی موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جیل موت کی کوٹھڑی ہے مگر تصویر کا یہ رخ جو ویٹنگ حال سے کلنیکل لیب تک مشفق پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں دکھلایا گیا نہایت حسین و جمیل تھا۔ جہاں لکھا نظر آیا کہ "نفرت مجرم سے نہیں جرم سے ہے "اور "سب اچھا ہے"، کی کہانی سننے کو ملی۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ جو دکھایا تو نہ گیا مگر نظر آنے والے قیدیوں کے چہروں سے عیاں تھا۔ وہ اطمینان بخش نہ تھا۔ اگرچہ بیرک میں نہ لے جایا گیا مگر ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جیل میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے دو گنا زیادہ ہے جس پر ہیومن رائٹ کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سہولیات کی فراہمی کی اک طویل فہرست دیکھنے کو ملی مگر سہولیات کی دستیابی بھی کرپشن سے مشروط ہے جس کیلئے قیدیوں اور اہلِ خانہ سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال جنوری اور فروری میں کرپشن کے خلاف اہلِ خانہ نے سات سو شکایتیں جمع کروائی ہیں۔
بظاہر تشدد تو سختی سے منع ہے مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق تو عدم تشدد جیلوں میں موجود نہیں۔
پاکستانی قیدیوں کے ساتھ سلوک تو اپنی جگہ مگر بھارتی قیدیوں کی ہلاکت کے واقعات بھی سامنے آئے جو انتظامیہ کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر سرکاری ادارے کی طرح سہولیات کے فقدان کا رونا یہاں بھی رویا جارہا تھا اور نفری کی کمی کا بھی بتلایا گیا۔ اس سارے دورے سے جہاں سہولیات سے لے کر قیدیوں کی بے بسی کا منظر دیکھنے کو ملا وہاں آزادی اور قانون کی پاسداری کی اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ آزادی ہر ذی روح کا حق ہے۔ انسان تو پھر اس دنیا کا لیڈر ہے۔ مگر جب جب فردِ واحد کی آزادی حد سے تجاوزکرتی ہے تو وہ دوسروں کی آزادی کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ جس سے قانون کی پاسداری بھی ختم ہوجاتی ہے اور جنگل کے قانون سے بچنے کیلئے ان سزاؤں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
مگر بعض اوقات بے گناہ لوگ بھی سزا کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا سبب ناقص عدالتی نظام ہے۔ جس کا حال جاننا بھی ضروری ہے بقول مصحفی غلام
زنداں کی تُو اپنے سیر تو کر
شاید کوئی بے گناہ نکلے
تبصرہ لکھیے