’’کیا جنرل باجوہ نے اپنے دور میں کسی کو این آر او دیا؟‘‘اس کا سیدھا سادہ جواب ہے جی ہاں جنرل باجوہ نے دو بار این آر او دیا تھا‘ پہلا این آر او 2017 میں عمران خان کو دیا گیا اور دوسرا عمران خان کے حکم پر 2021 میں آصف علی زرداری کو دیا گیا تھا۔
ہم سب سے پہلے عمران خان کے این آر او پر آتے ہیں‘ حنیف عباسی نے نومبر 2016 میں سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دو پٹیشنز دائر کیں‘حنیف عباسی کا دعویٰ تھا پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ اور بنی گالا کی تین سو کنال اراضی کی منی ٹریل چھپائی جب کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے بھی آف شور کمپنیاں ‘ بیرون ممالک اثاثے اور ساڑھے اٹھارہ ہزار ایکڑ اراضی چھپائی اور یہ اسٹاک ایکسچینج میں ان سائیڈر ٹریڈنگ بھی کرتے رہے لہٰذا یہ دونوں حضرات آئین کے آرٹیکل 62اور 63 کے تحت صادق اور امین نہیں ہیں۔
انھیں ڈس کوالی فائی کیا جائے‘ جسٹس ثاقب نثار اس وقت چیف جسٹس‘ قمر جاوید باجوہ آرمی چیف اور فیض حمید میجر جنرل اور آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے ‘ چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنادیا‘نعیم بخاری عمران خان اور اکرم شیخ حنیف عباسی کے وکیل تھے‘ سماعت شروع ہوئی تو عمران خان اور جہانگیر ترین پھنستے چلے گئے۔ عمران خان نے تین بار اپنا موقف تبدیل کیا لیکن بات بنتی نظر نہ آئی‘ عمران خان کی 2017 کے وسط تک جنرل باجوہ سے کوئی ملاقات نہیں تھی‘ جہانگیر ترین نے جنرل باجوہ سے رابطہ کیا اور عمران خان کو ساتھ لے کران کے گھر پہنچ گئے۔
عمران خان نے جنرل باجوہ سے مقدمے میں مدد مانگی‘ میاں نواز شریف اس وقت تک پاناما کیس میں ڈس کوالی فائی ہو چکے تھے اور عمران خان کی ڈس کوالی فکیشن سامنے نظر آ رہی تھی‘جنرل باجوہ نے ڈی جی سی (میجر جنرل فیض حمید) کو عمران خان کی مدد کی ہدایت کر دی‘ ان کا خیال تھا‘ایک وزیراعظم ڈس کوالی فائی ہو چکا ہے اور اگر دوسرا الیکشن سے پہلے ہی ڈس کوالی فائی ہو گیا تو ملک کیسے چلے گا؟ جنرل فیض حمید نے ملک کے ایک مشہور وکیل کو اپنا ایلچی بنا کر چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس بھجوا یا‘ یہ وکیل صاحب لاہور میں چیف جسٹس سے ملے‘ ابتدائی بات چیت ہوئی۔
اس کے بعد جنرل فیض حمید اور جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات ہوئی‘ ثاقب نثار عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں کو بیک وقت صادق اور امین ڈکلیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا میرے ساتھی جج نہیں مانیں گے۔ آپ دونوں میں سے کسی ایک کو بچا لیں‘فیصلہ ہوا سردست جہانگیر ترین کو قربان کر دیاجائے تاہم فیوچر میں ان کی بحالی کی گنجائش ضرور رکھی جائے‘ اس کے بعد چیف جسٹس کو دو وکیل دیے گئے‘ان وکیلوں نے عمران خان اور جہانگیر ترین کا فیصلہ لکھا‘15 دسمبر 2017 کو فیصلہ سنانے کا اعلان ہوا۔ فیصلے کا وقت آ گیا لیکن ججز کورٹ نمبر ایک میں تشریف نہیں لائے‘ٹیلی ویژن اسکرینیں گرم ہو گئیں اور اسلام آباد‘ راولپنڈی اور بنی گالا میں دوڑیں لگ گئیں‘ دوبارہ رابطے ہوئے اور یوں 3 بج کر20 منٹ پر عمران خان کو صادق اور امین ڈکلیئر کر دیا جب کہ جہانگیر ترین مجرم قرارپا کر سیاست سے تاحیات نااہل ہو گئے‘ترین صاحب ’’بیلنسنگ ایکٹ‘‘ کا شکار ہو گئے‘ عمران خان چند دن بعد شکریہ ادا کرنے ایک بار پھر جنرل باجوہ کے گھرگئے اور ان سے فرمائش کی’’ہم نے جہانگیر ترین کو ضرور بچانا ہے۔
میں اس کے بغیر حکومت نہیں چلا سکوں گا‘‘ فیض حمید کو ایک بار پھر ٹارگٹ دے دیا گیالیکن پھر فروری 2018میں عمران خان کا بشریٰ بی بی سے نکاح ہو گیا‘ مارچ میں عمران خان کی جنرل باجوہ سے تیسری ملاقات ہوئی‘ اس میں جہانگیر ترین کا ذکر آیا تو عمران خان نے کہا ’’جنرل صاحب آپ اس کو ابھی رہنے دیں‘ ہم فیوچر میں دیکھیں گے‘‘ جنرل باجوہ یہ سن کر حیران رہ گئے‘ یہ عمران خان کی طرف سے ان کو پہلا دھچکا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے جہانگیر ترین کو ٹٹولا تو پتا چلا‘ بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور فرید مانیکا کا ایک بھائی ترین صاحب کا پرانا دوست ہے‘ اس نے انھیں بتایا’’آپ کے گھر جادو ٹونا پہنچ چکا ہے‘ آپ اب برباد ہو جائیں گے‘‘ ترین صاحب نے یہ بات عون چوہدری کو بتا دی‘عون چوہدری نے عمران خان کو بتا دیا اور یوں جہانگیر ترین کا پتہ کٹ گیا‘ ترین صاحب اس وقت تک بشریٰ بی بی سے نہیں ملے تھے۔
ان کی خاتون اول سے پہلی ملاقات 18 اگست 2018 کو ایوان صدر میں وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں ہوئی ‘ بشریٰ بی بی نے اس دن سفید عبایا اور سفید نقاب پہن رکھا تھااور یہ پہلی قطار میں جنرل باجوہ کی بیگم کے ساتھ بیٹھی تھیں‘ وزیراعظم حلف کے بعد فوری طور پر اسٹیج سے اتر کر اپنی بیگم کے پاس آئے اور انھیں مبارک باد پیش کی۔ بشریٰ بی بی بعدازاں جہانگیر ترین کے پاس گئیں اور ان سے کہا ’’ میں آج سفید لباس اس لیے پہن کر آئی ہوں تاکہ آپ کا یہ شک دور کر سکوں‘ میں جادوگرنی نہیں ہوں‘‘ یہ سن کر جہانگیر ترین کو محسوس ہوا ’’میں آج سے عمران خان سے فارغ ہو چکا ہوں‘‘ یہ خدشہ سچ ثابت ہوا‘ آنے والے دنوں میں واقعی عون چوہدری اور جہانگیر ترین دونوں فارغ ہو گئے۔
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے دور میں جب بھی جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کی کوشش کی ‘ خان صاحب نے انکار کر دیا‘ میں نے ان واقعات کی تصدیق کے لیے 25 دسمبر کو جہانگیر ترین سے رابطہ کیا‘ ترین صاحب نے ان تمام واقعات کی تصدیق کر دی۔
تاہم انھوں نے سردست تاریخیں اور فیصلہ لکھنے اور جسٹس ثاقب نثار سے ملنے والے وکلاء کے ناموں کی تصدیق سے معذرت کر لی۔ عمران خان کے پہلے این آراو کے نتیجے میں دو سیاست دانوں کی سیاست تباہ ہو گئی‘ جہانگیر ترین اور حنیف عباسی‘ حنیف عباسی کے خلاف 2012میں ایفی ڈرین کا کیس بنا تھا‘یہ عدالتوں میں چلتا رہا‘عمران خان کو حنیف عباسی کی تقریریں اور ٹیلی ویژن شو اچھے نہیں لگتے تھے لیکن 2016 اور 2017 کی پٹیشن کے بعد یہ تکلیف دشمنی میں بدل گئی۔
25 جولائی 2018 کو جنرل الیکشن تھا‘حنیف عباسی الیکشن کمپیئن میں مصروف تھے‘ ان کی اگلی پیشی الیکشن کے بعد دو اگست 2018 کو تھی لیکن پھراچانک شاہد اورکزئی نے ’’عام شہری‘‘ کی حیثیت سے راولپنڈی ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی‘ عدالت نے فوری طور پر یہ پٹیشن قبول کر لی اور اینٹی نارکوٹیکس کورٹ کو 8 دن میں فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا۔ حنیف عباسی سپریم کورٹ گئے لیکن سپریم کورٹ نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا یوں13جولائی کو سماعت شروع ہوئی اور 21 جولائی کو الیکشن سے چار دن پہلے حنیف عباسی کو عمر قید ہوگئی جب کہ یہی عدالت اس سے پہلے ایفی ڈرین کے چھ ملزموں کو بری کر چکی تھی‘ حنیف عباسی 9 ماہ جیل میں رہے‘ ڈاکٹر اسلم مرحوم جنرل فیض حمید کے ذاتی دوست تھے۔
انھوں نے بہت کوشش کی مگر اسٹیبلشمنٹ اس وقت بری طرح عمران خان کی محبت میں گرفتار تھی‘ یہ انھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی لہٰذا حنیف عباسی محبت کی اس سولی پر لٹکے رہے‘ حنیف عباسی کی فیملی ڈاکٹر اسلم اور میرے پاس آتی تھی۔ ہم انھیں تسلی دے کر گھر بھجوا دیتے تھے مگر انھیں اصل بات نہیں بتاتے تھے بہرحال اللہ نے کرم کیا اور لاہور ہائی کورٹ نے 11 اپریل 2019 کو حنیف عباسی کی ضمانت لے لی‘ میں نے یہ خبر سن کر ڈاکٹر اسلم کو مبارک باد دی‘ مرحوم کا کہناتھا‘ یہ فیصلہ صرف اور صرف میرٹ پر ہوا‘ عدالت کو حنیف عباسی کی مظلومیت پرترس آ گیا۔
میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں جانتا تھا اس بارضمانت رکوانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی اگر کوشش کی جاتی تو یہ کیس جسٹس عالیہ نیلم کی عدالت میں نہ لگتا اور اگر لگ بھی جاتاتو جج صاحبہ خود ہی معذرت کر لیتیں بہرحال اللہ نے کرم کیا اور حنیف عباسی گھر واپس آگیا۔ جنرل باجوہ کا دوسرا این آر او آصف علی زرداری اور ان کے مقدمات کی کراچی شفٹنگ تھا‘ حکومت کے خلاف ستمبر 2020میں پی ڈی ایم بنی‘ عمران خان اس سے خائف تھے‘ یہ پی ڈی ایم کوکم زور کرنا چاہتے تھے‘ وزیراعظم ہاؤس میں میٹنگ ہوئی‘ جنرل باجوہ اور جنرل فیض بھی اس میٹنگ میں شامل تھے۔
عمران خان نے میٹنگ میں کہا ‘ پی ڈی ایم چوروں کا ٹولہ ہے‘ آپ اسے توڑ کیوں نہیں دیتے؟ جنرل فیض حمید نے کہا ’’اس کا ایک ہی حل ہے‘ ہم آصف علی زرداری کے کیس کراچی شفٹ کر دیں‘ یہ اگر اسلام آباد سے کراچی چلے جائیں تو پی ڈی ایم ختم ہو جائے گی‘‘ عمران خان نے فوراً کہا ’’آپ یہ مقدمے کراچی شفٹ کر دیں‘‘ اور یوں آصف علی زرداری کو بھی این آر او مل گیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان پیپلزپارٹی 13 اپریل 2021 کو پی ڈی ایم سے الگ ہوگئی۔
یہ تمام واقعات تاریخی ہیں اور بدقسمتی سے ہماری تاریخ بہت بھیانک ہے‘ ہم اگر اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اپنا آج ٹھیک کرنا ہوگا‘ ہم نے اگر آج یہ نہ کیا تو پھر یقین کریں ہمارا کل آج سے بھی زیادہ بھیانک ہو گا‘ آپ پھر کسی اچھائی یا تبدیلی کی توقع نہ رکھیں‘اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ان کا تدارک کرنا چاہتی ہے‘یہ سیاست دانوں اور سویلین اداروں کو موقع اور سپورٹ دونوں دینا چاہتی ہے۔ میرا خیال ہے یہ ہاتھ تھام لینا چاہیے‘ سیاست دان اکٹھے بیٹھیں‘ گرینڈ ڈائیلاگ کریں‘ ایشوز کو بیس سال کے لیے لاک کریں اور آگے بڑھیں‘یہ واحد راستہ ہے‘ یقین کریں اگر یہ موقع بھی ضایع ہو گیا توانھیں پھر دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔
میں آخر میں یہ درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں‘ جہانگیر ترین اور حنیف عباسی کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ ان کے کیسز پر ہمدردانہ غور ہونا چاہیے‘ عدالتیں بے شک تلافی نہ کریں لیکن ان کا حق انھیں ضرور لوٹا دیں‘کیوں؟ کیوں کہ زیادتی کو کبھی بددعا میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے