سقوط مشرقی پاکستان اور آرمی پبلک سکول حملہ پاکستان کی تاریخ کے وہ عظیم سانحات ہیں کہ جن سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم ایک بار پھر 71 ء کے حالات پیدا کر دئیے ہیں۔
اگر ایک طرف دشمن نے ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے کاٹتے ہوئے دوحصوں میں تقسیم کر دیا تو 17 دسمبر کو زخم خوردہ قوم کے دل پر وار کیا ۔پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کسی بھی طرح سے 9/11 جیسے واقعے سے کم نہیں تھا‘ پشاور میں ہونے والا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کا دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ اس سانحہ میں 150 سے زائد شہادتیں ہوئیں جس میں 133 سے زائد ننھے‘پیارے اور معصوم پھول جیسے بچے شامل تھے‘ اس کے علاوہ 126 سے زائد طلبا زخمی بھی ہوئے تھے۔
افسوس ! الم ناک سانحہ کی یاد دہانی کیلئے گزشتہ 50 برس سے کانفرنسیں ، اجلاس و سیمینارز کا انعقاد ہو اہے اور بنگلہ دیش بننے کا سارا ملبہ دشمن پر دڈال کر دوبارہ حکومتی و سیاسی و سماجی اداروں پر ایک طویل سکوت چھا جاتا ہے ،اس دوران نہ ہمیں پاک بھارت71ء کی جنگ میں وطن کی سا لمیت پر مر مٹنے والے شہداء کی یاد ستاتی ہے اور نہ ان لٹے پٹے مہاجرین کاخیال آتا ہے جنہوں نے پاکستا ن کی خاطر بنگلہ دیش میں رہنا گوارہ نہ کیا۔ اس میں کسی حد تک مغربی پاکستان میں بسنے والے لوگ بھی قصور وار ہیں کہ کیوں زمینی و جغرافیائی فاصلوں کے ساتھ ساتھ دلوں کے فاصلے بھی نہ مٹا سکے ۔
سوال تو یہی ہے کہ ملک دو لخت ہونے کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ قومیں اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے ہی سیکھتی ہیں ۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ سقو ط ڈھاکہ بعد بھی ہم متحد نہ ہو سکے ۔ ہرگز نہیں بلکہ آج بھی ایک بار ہم پھر اسی دوراہے پر کھڑے ملکی و قومی سا لمیت کو دائو پر لگا رکھا ہے ۔ 51 برس قبل بھی ہمارے سیاستدان اپنی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے میں ہمہ تن مصروف رہیں اور آج بھی ملکی حالات اسی ڈگر پر ہیں ۔سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کی حصول اقتدار کی کشمکش نے 71ء جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔اللہ نہ کرے کہ ہمیں کسی اور آزمائش سے گزرنا پڑے ۔
ہمارا ملک اسکا متحمل نہیں ہو سکتا ۔جنگ احد میں رسول خد ا ؐ کے فرمان سے غفلت اور مسلمانوں کا نقصان بھی ایسا ہی واقعہ تھامگراْس وقت کے مسلمانوں نے اس سے ایسا درس عبرت لیا کہ اسکے بعد قوی ترین دشمنوں کو بھی ہمیشہ کیلئے نابود کردیا ۔ملک دشمن عناصر آج بھی سرگرم ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے کہ جب پاکستان مغربی محاذ اور اندرونی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے عوام اور افواج اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں جبکہ ہمارا دشمن مختلف انداز سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر کے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا تو تب اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کے دوقو می نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبودیا۔ یوں بھارت نے پاکستان کو توڑنے کے اپنے گھنائونے منصوبے میں پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل ۔
مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرنے کے بعد دشمن کے نشانے پر بلو چستان ہے ۔اگر سقوط ڈھاکہ میں بھارت کی شمولیت پہ کوئی شک وشبہ تھا تو وہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے جون 2015 ء میں اپنے دورہ بنگلہ دیش میں بنگلہ دیشی پارلیمان سے خطاب کے دوران اس اقرارنے د ور کردیا کہ1971 ء میں وہ بنگالی حریت پسندوں کیساتھ شانہ بشانہ لڑے تھے۔ پاکستان کے ٹکڑ ے بخئے کرنے کی سازش کی تکمیل میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15اگست 2016 ء کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پہ تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کوآزادی دلوائیں گے بلکہ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ آزاد جموں وکشمیر ،گلگت او ر بلتستان کو بھی پاکستانی تسلط سے آزاد کراکے دم لیں گے۔
پاکستان کو توڑنے پربنگلہ دیش کی حکومت نے2012ء میں اندراگاندھی کو ’’فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ‘‘ایوارڈ دیا۔ یہی ایوارڈ واجپائی کوبھی 2016ء میں دیاگیا جسے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وصول کیااور ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فخریہ پاکستان کوتوڑنے کا اعتراف کیا تھا۔ بھارتی مداخلت کا واضح ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری ہے جس نے خود بلوچستان میں دہشتگردی کا اعتراف کیا کس طرح بلوچ نوجوانوں کوپاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کیلئے انہیں اسلحہ سمیت رقوم بھی فراہم کی جاتی رہیں۔ بھارتی فوج نے جس طرح سے بھارت اور مشرقی پاکستان میں قائم تربیت گاہوں میں مکتی باہنیوں کی تربیت کی اور پاک فوج کی وردیوں میںملبوس بھارتی فوجی ذلت آمیز کارروائیاں کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے خلاف ابھارنے میں مگن رہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
بنگالیوں کو یہ باور کر ایا گیا کہ مغربی پاکستانی بنگالیوں سے نفرت کرتے ہیںاور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دانستہ طورپرانہیںپسماندہ اور غیرترقی یافتہ رکھنا چاہتے ہیں ۔بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را’’ کے قیام کا اصل مقصد ہی بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ ’را ‘ کاپہلا ٹاسک ہی مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنا تھا اور اس مذموم کاروائی کو ’’آپریشن بنگلہ دیش ‘‘کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران ‘را ‘نے مشرقی پاکستان میں صحافیوں ، اساتذہ، دانشوروں سمیت ہر طبقہ فکر کو فکری دہشت گردی کے کام پر لگادیا اس مقصد کے لیے بھاری رقوم مختص کی گئیں جبکہ بھارتی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے پاک فوج کے خلاف زہر اگلا جاتا رہا ۔
تاریخ گواہ ہے کہ71 ء کی جنگ میں انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ہمارے جوانوں اور افسروں نے اپنے حوصلے بلند رکھے ۔ اس امر کی تصدیق بھارتی فیلڈ مارشل جنرل مانک شا نے اپنے انٹرویو میں کی کہ پاکستان آرمی اور بھارتی فوج میں سپاہ و سازوسامان کا 1:9 کا عددی فرق تھا۔ اس کے باوجود مشرقی پاکستان کے محاذ پر پاک فوج نے جرات و دلیری کی روشن مثال قائم کی،زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ہیروز پر فخر کرتی ہیں۔لیکن ہم نے ان شہداء اور غازیوں کے ساتھ کیا کیا ؟وطن پر جان نچھاور کرنے والے پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں یکسر بھلا دیا ۔
بھارتی معروف صحافی کلدیپ نیر کے گئے انکشاف کے مطابق ’’درحقیقت بھارت نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان پر قبضے کا ایک پندرہ روز منصوبہ تیار کیا تھا۔یہی وہ منصوبہ تھا جسے اب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بروئے کارلایاجارہا ہے۔‘‘ٹائمز(لندن)کے مطابق’’ مکتی باہنی تمام نہیں تو اس کا بڑا حصہ بھارتی فوجیوں پر مشتمل تھا۔ اب بھارت کا اگلا اقدام یہ تھا کہ پاک فوج کے اقدام میں رکاوٹ کے لیے ذرائع مواصلات کو سبوتاژ کرنے اور باغیوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے مشرقی پاکستان میں تخریب کار بھیجے جائیں۔
ابتداء میں بھارت نے مکتی باہنی کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا، لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ متعینہ مقاصدکاحصول مکتی باہنی کے بس کی بات نہیں تو بھارتی فوج بھی میدان میں کود پڑی‘‘۔ مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش میں قتل و غارت اور نسل کشی کا سارا الزام بنگلہ دیش اور ہندوستان کے سرکاری کھاتوں نے پاکستان پر ڈال دیاتھا اوربھارت نے 1971 ء سے متعلق تمام ریکارڈ کو ختم کردیا ہے۔مشرقی پاکستان میںبھارت نے نہ صرف وہاں قبیح پروپیگنڈہ جاری رکھا بلکہ باقاعدہ فوج کشی کرکے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔
بدقسمت مسلمانوں کے ہزاروں خاندان ، جن میں سے بیشتر مہاجرین جنہوں نے 1947 ء میں پاکستان میں بسر ہونے کا فیصلہ کیا تھا ، بے رحمی کے ساتھ صفایا کردیا گیا تھا۔ خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران اور ان کے کنبوں کا ہلاک کیا گیا۔ زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ بار بار عصمت دری کی گئی اور انھیں مارا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق‘جب جہاز چٹاگانگ کے قریب پہنچا تو وہاں لاشیں تیر رہی تھیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری پاکستانی وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب’’شکست آرزو‘‘ بہت واضح انداز میں ان سازشوں اور توضیحات کا احاطہ کرتی ہے، جن کی بدولت ایسٹ پاکستان کو الگ کرنے میں بھارت نے ایسا وار کیا، جس کے زخم آج تک مندمل نہ ہو سکے ۔
تبصرہ لکھیے