ہوم << ویل ڈن کی ضد کیا ہوتی ہے- حبیب الرحمن

ویل ڈن کی ضد کیا ہوتی ہے- حبیب الرحمن

پاکستان کرکٹ کا پہلا ٹسٹ ہار ضرور گیا تھا لیکن جس انداز میں پہلی اننگ کے پہاڑ جیسے اسکور کا جواب دینے کے بعد انگلش ٹیم کو نہ صرف دوسری اننگ کھیلنے پر مجبور کیا تھا بلکہ کھیل کے آخری گھنٹوں تک انگلش ٹیم کے اعصاب جھنجوڑ کر رکھ دینے والے انداز نے دنیائے کرکٹ کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کرکٹ کے ٹسٹ میچوں میں بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بھر پور اہلیت رکھتی ہے۔

یہی وجہ تھی کہ میں نے پاکستان کی ہار کو بھی ایک پُر وقار ہار قرار دیکر ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے "ویلڈن پاکستان کی کرکٹ ٹیم" کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس کو جسارت اور دلیل ڈاٹ کام میں جگہ ملی۔ جب لکھنے، دیکھنے اور سننے والے ہار جیت سے صرف نظر کرکے اور اعلیٰ کارکردگی کو بنیاد بناتے ہوئے کسی ٹیم کی حوصلہ افضائی کر سکتے ہیں تو خلاف توقع خراب کارکردگی پر تنقید کیوں نہیں کر سکتے۔ تنقید کا مقصد دل کے پھپھولے پھوڑنا کبھی مقصود نہیں ہوا کرتا بلکہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ پاکستان کی قوم کا پیسہ کھلاڑیوں پر اس لئے نہیں لگایا جاتا کہ وہ قوم کو مایوس کرتے رہیں بلکہ اس لئے اتنی دولت خرچ کی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں قوم کا نام روشن کریں۔

انگلش ٹیم نے جس انداز میں پہلا ٹسٹ میچ کھیلا وہ بہت ہی تباہ کن تھا۔ بلاشبہ اس میچ کے شائقین ایسے میچ کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ توقع تھی کہ دوسرا میچ بھی اسی جیسا منظر پیش کرتا ہوا نظر آئے گا لیکن لگتا ہے کہ پاکستان نے پہلے میچ کا حشر دیکھنے کے بعد ملتان کی وکٹ ہی اس طرح بنائی ہو کہ وہاں بیٹروں سے زیادہ بالروں کا جادو چلے۔ ہوا بھی ایسا ہی اور دنیا نے دیکھا کہ وہ میچ اختتام تک پاکستان بمقابلہ انگلینڈ کم اور انگلینڈ بمقابلہ ابرا احمد زیادہ بن گیا۔ وکٹ بنانے کا بھر پور فائدہ پاکستان کو ہوا جس کیلئے وکٹ بنانے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

جب پہلی اننگ میں انگلیڈ جیسی ٹیم کو بڑا اسکور کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو خیال یہی تھا کہ پاکستان انگلینڈ کو جلد آؤٹ کرنے اور خود ایک بڑا اسکور حاصل کرنے اورانگلینڈ ٹیم کو سخت دباؤ میں لے کر میچ کا فیصلہ اپنے حق میں بآسانی کروالے گا۔ لیکن جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ نہایت مایوس کن تھا اور پاکستان ایک بڑا اسکور کرنے کی بجائے انگلینڈ کی ٹیم کے اسکور کے برابر بھی رنز نہ بنا سکا یعنی جو گڑھا اس نے انگلینڈ کی ٹیم کیلئے کھودا تھا، انگلینڈ کی ٹیم کو تو بے شک اس میں گرا دیا لیکن خود اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکا اور نہایت زور دار آواز کے ساتھ اسی گڑھے میں جا گرا۔

یہی نہیں ہوا، پاکستان کو گڑھے میں گرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر موقع ملا اور اس نے باہر نکل کر ایک مرتبہ پھر انگلینڈ کی ٹیم کو دوبارہ کم اسکور پر آؤٹ کر کے میچ کو کافی حد تک متوازن بنا دیا۔ بے شک دوسری اننگ میں جیت ہار جیت ہار کا تموج کھیل کے اختتام تک رہا لیکن انجامِ کار پاکستان نہ صرف دوسرا ٹسٹ میچ ہار گیا بلکہ سیریز بھی گنوا بیٹھا۔ جس طرح پہلے ٹیسٹ میچ میں ہمارے بالرز ناکام نظر آ رہے تھے اور ٹیم کی ہار کی بہت بڑی وجہ بالرز کی ناکامی تھی، دوسرے ٹسٹ میں بلا شبہ ہمارے بالرز کالی آندھی کی طرح انگلینڈ کی ٹیم پر چھا گئے تھے.

اور ان کے قدموں کے نیچے سے قالین کھینچ کر اوندھا گرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انگلیڈ جیسی ٹیم کو دوسری مرتبہ بھی کم اسکور پر آؤٹ کرنا کوئی ایسا کام نہیں تھا جسے ہنسی مذاق سمجھا جائے لیکن افسوس کے ہمارے بیٹروں نے یا تو اسے بہت آسان لیا یا پھر ان کی صلاحیت بس اتنی ہی تھی جتنے کی کارکردگی سامنے آسکی۔ پاکستان کے بالرز نے دوسری اننگ میں بھی پہلی اننگ جیسی کارکردگی دکھائی اور انگلینڈ کو ان کی پہلی اننگ کے برابر بھی اسکور نہ کرنے دیا لیکن صد افسوس، پاکستان کے بیٹرز اپنی صلاحتیوں کا مظاہرہ کرنے میں سخت ناکام رہے اور پونے تین دن کا وقت ہونے کے باوجود 355 رنگ کے حدف کو حاصل نہ کر سکے۔

کرکٹ ٹیم ہی نہیں پورا بورڈ اپنے لئے سوال پر سوال اٹھاتا نظر آتا ہے۔ پہلی وکٹ اس قدر پلین تھی کہ جس پر کوئی بھی ٹیم پہاڑ کھڑے کر سکتی تھی اور اس قسم کی وکٹ پر ٹسٹ میچ کا کوئی بھی نتیجہ سامنے آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جس وکٹ پر بڑے اسکور بنتے تھے، اس کا اختتام ڈرا کی صورت ہی میں سامنے آیا کرتا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اتنی پلین وکٹ پر انگلینڈ نے اپنی دوسری اننگ ڈکلیئر کیوں کی۔ کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اسے پاکستان کے بیٹروں کی کمزوریاں معلوم تھیں اور اس بات کا یقین کامل تھا کہ وہ پوری ٹیم کو آؤٹ کر لیں گے۔

پوزیشن ہی ایسی تھی کہ یا تو میچ انگلینڈ جیتتا یا پاکستان، بیچ کا راستہ کوئی نہیں تھا۔ ایسی صورت میں ہر ٹیم کی کوشش ہوتی ہے کہ مخالف ٹیم کو کھیلنے کی دعوت ضرور دے لیکن وقت کم سے کم دے تاکہ ڈکلیریشن کا فیصلہ گلے نہ پڑ جائے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ ثابت یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے بالرز ہوں یا بیٹرز، وہ وکٹ سے مطابقت کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ میرے نزدیک وکٹ کیسی بھی ہو، دونوں ٹیموں کیلئے ہموار میدان فراہم کرتی ہے کیونکہ دونوں ٹیمیں اسی ایک وکٹ پر کھیل رہی ہوتی ہیں بات دونوں ٹیموں کے بالروں اور بیٹروں کو اسی وکٹ کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔

لہٰذا وکٹ کیسی ہونی اور کیسی نہیں ہونی چاہیے کی بجائے ہر بالر اور ہر بیٹر کیلئے ضروری ہے کہ وہ وکٹ کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرے۔ جو ٹیم ایسا کر لے گی، کامیابی اسی کی جھولی میں آئے گی۔

Comments

Click here to post a comment