خود ستائی نہیں ، اور نہ ہی خود فریبی ہے۔ یہ گراؤنڈ ریالٹی ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت نانوتوی رحمت اللہ کی جماعت سے اپنے دین کا بہت کام لیا ہے۔ اور درویشوں کی اس جماعت کو ہمیشہ ہی دین کے ہر شعبہ کی خدمت میں لیڈنگ رول سے نوازا ہے۔ اگر ہر ایک شعبہ کی تفصیل لکھی جائے تو شائید کئی کتابیں درکار ہونگی۔
صرف دعوت و تبلیغ کے شعبہ میں تبلیغی جماعت کے نام سے دین کی ایسی خدمت کی ہے کہ کفار بھی اس جماعت کی خدمت کے معترف ہیں۔ امریکہ کی سرکاری ایجنسی کے مطابق اس جماعت نے دنیا بھر میں بیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف انڈیا ، بنگلہ دیش اور پاکستان کے تبلیغی جماعت کے لوگوں کی تعداد بیس کروڑ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس جماعت نے زندگی کے ہر شعبہ کے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ اس جماعت میں مزدور بھی وقت لگاتا ہے ، ٹھیکیدار بھی۔ فیکٹری کا مالک بھی دین سیکھنے سکھانے کی محنت میں شامل ہے اور فیکٹری کا عام ورکر بھی۔
کالج و یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ اور پروفیسر بھی اس جماعت سے متاثر ہیں۔ فوج کا سپاہی اور فوج کا جرنیل بھی اس میں شامل ہے۔ اس جماعت نے دین کی عالی محنت سے ڈاکٹرز کو مولوی بنایا ہے ، انجئیرز حافظ قرآن بنے ہیں۔ وکیلوں کو مسجد کی امامت سکھائی ہے۔ فوج کے جرنیلوں کو پگڑی پہنائی ہے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کو نماز تراویح میں قرآن سنانے والا بنایا ہے۔ اس جماعت کے اخلاص کی وجہ سے ڈاکوؤں ، چوروں ، راہزنوں اور بڑے بڑے بدمعاشوں نے راہ ہدایت پائی ہے۔
لیکن اب تبلیغی جماعت کی محنت کے مقابل الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔ یعنی دین اسلام کے نام سے ایسے ادارے بنائے جا رہے ہیں۔ جو مولوی کو ڈاکٹر بنائیں گے ، مولوی کو انجئیر بنایا جائیگا۔ مولوی کو کمپیوٹر ایکسپرٹ بنایا جائیگا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی روح نئے روپ میں دوبارہ جنم لے رہی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے سودی معیشت کے ماہرین پیدا کئیے ہیں۔ فلموں کے کہانی نویس ، ڈراموں کے ڈائیلاگ لکھنے اور ترتیب دینے والے پیدا کئیے ہیں۔ فلمساز ، فلم ڈائریکٹر ، فلمی اداکار و اداکارائیں یہ سب علی گڑھئیے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی والے علی گڑھ کا سلیبس پڑھے ہوئے ہیں۔
اور اب علی گڑھ کی نئی روح کے ساتھ دوبارہ جنم لینے والے وفاق کا نام مجمع العلوم ہے۔ تبلیغی جماعت جس نے انجئیر کو مولوی بنایا ہے۔ یہ ادارہ 180 زاویہ پر بالکل الٹی سمت مولوی کو انجئیر بنانے کا کام کرنے جا رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ مدارس میں تعلیم کی یہ روش عام ہو گئی تو ہم بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ پھر مدارس میں کوئی شیخ الہند پیدا نہ ہوگا۔ کوئی مفتی کفایت اللہ ، الیاس کاندھلوی ، عطاءاللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، سرفراز خاں صفدر ، حق نواز جھنگوی اور ملا عمر وغیرہم پیدا نہ ہونگے ، مدارس بانجھ ہو جائیں گے۔ مدارس بابو مولویوں کی فیکٹریاں بن جائیں گی۔ متقی اور قربانی دینے والے علماء پیدا نہ ہونگے۔ علی گڑھ سے تعلیم یافتہ لوگوں کی طرح بہتر سے بہتر روزگار کے متلاشی نیم ملا پیدا ہونگے۔ جن کا اولین ہدف بہتر روزگار ہوگا۔
ٹوٹی چٹائی پر بیٹھکر قال اللہ و قال رسول کی آواز بلند کرنے والے پیدا ہونے بند ہو جائیں گے۔ الغزالی یونیورسٹی حکومتی سطح پر تسلیم کر لی گئی ہے۔نئے فرقہ ( مجمع العلوم ) کی یہ یونیورسٹی دین میں نئے فتنے پھیلانے کے لئیے اتنا بڑا شر ثابت ہوگی کہ مودودی صاحب ، غامدی صاحب ، وحید الدین خاں صاحب ، ڈاکٹر عثمانی صاحب وغیرہم اس نئے فرقہ کے مقابل بہت بونے دکھائی دیں گے۔الغزالی یونیورسٹی سعودی عرب اور پاکستان کی حکومت کے تعاون سے دنیا بھر میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرے گی۔ لارڈ میکالے کے سلیبس کو نئی پیرہن کے ساتھ رائج کیا جائے گا ، تاکہ عام مسلمان کو قبول کرنے میں دشواری نہ ہو۔ اس یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ لوگ خیر سگالی کے نام سے کفر سے جنگ کرنا دقیانوسیت تصور کریں گے۔ جہاد فی سبیل اللہ کو خیر باد کہہ کر طالبان ان کے نزدیک جاہل ، جدید تقاضوں سے نا آشنا کہلائیں گے۔
سر پر پگڑی باندھنا زمانۂ جہالت کی پیروی کہلائے گی۔ مسخرے مفتی پیدا ہونگے۔ جو نوجوانوں کو نئی نئی شادیوں کے گُر سکھایا کریں گے۔ یورپ اور امریکہ میں اسلام پھیلانے کے لئیے ان جیسا بننا لازم قرار پائے گا۔ وقت کے ساتھ لباس اور لطائف بھی یورپین اسٹائیل کے ہونگے۔اندازہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے مدارس کے علاوہ دیگر مدارس کو بھی الغزالی یونیورسٹی متاثر کرے گی۔ پرویز مشرف کہا کرتا تھا کہ میں دینی مدارس کو مین اسٹریم میں لانا چاہتا ہوں۔
پرویز مشرف کے ایجنڈے کی تکمیل اب الغزالی یونیورسٹی کرے گی۔ ہر چند ماہ بعد ایک اور “سنگ میل عبور کر لیا “ کی خبر اسلام اخبار کے پہلے صفحہ پر چھپا کرے گی۔ مصر کی جامع ازہر یونیورسٹی کی طرح بغیر داڑھی مفتی بنانے کی یہ فیکٹری ایسے لوگ تیار کرے گی ، جن میں تقوی ، پرہیزگاری اور دین کے لئیے قربانی ( جہاد ) کے جذبات کے علاوہ جدید مارکیٹ کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لئیے سب کچھ ہوگا۔ نہیں مانتے تو فلسطینی بھائیوں سے بطور گواہ پوچھ لیں۔
تبصرہ لکھیے