گزشتہ روز منگلا میں ڈیم کے یونٹ 5 اور 6 کی ریفربشمنٹ کی افتتاحی تقریب تھی۔ وزیرا عظم شہبازشریف کوہستان میں بجلی کے منصوبے کا اعلان کر رہے تھے۔ اس پر کشمیر کے وزیرا عظم سردار تنویر الیاس خان نے کہا کہ کشمیر کیلئے منصوبوں کا اعلان ہونا چاہئے۔ اس پر وزیر اعظم نے سردار تنویر الیاس کو بولنے سے منع کیا اور کہا کہ آپ بیٹھ جائیں بعد میں بات کریں گے۔
کشمیر کا معاملہ ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ اگر ہم انڈیا کو کہتے ہیں کہ کشمیر کی بات سنی جائے تو پاکستان کے حکمرانوں کو بھی کشمیر کی بات سننی چاہئے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے یہ بھی کہا کہ مجھے تقریب میں بلایا تک نہیں گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ سردار تنویر الیاس خان جو کہ کشمیر کے منتخب نمائندے ہیں۔ کشمیر میں تقریب ہو اور اُن کو بلایا نہ جائے تو یہ بات قابل صد افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے معاملے کو نظر انداز کرنے کے مترادف بھی ہے۔ اہل کشمیر کو اس بات کا شکوہ بھی ہے کہ بڑے قبضے پر بھارت نے جابرانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور دوسرے حصے کو کہنے کو تو آزاد کشمیر کا نام دیا گیا ہے مگر اس آزادی کو کیا کہا جائے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو وقعت ہی نہ دی جائے۔
وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مابین تکرار کی ویڈیوز سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر وائرل ہوئیں تو اس کا اچھا تاثر نہیں گیا۔ کشمیر کا معاملہ ہمیشہ حساس رہا ہے۔ پاکستان سے اہل کشمیر کو محبت ملنی چاہئے۔ نہ صرف وزیر اعظم آزاد کشمیر بلکہ کشمیر کے تمام اکابرین کو احترام ملنا چاہئے۔ سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر کے دوران سردار تنویر الیاس خان نہیں بلکہ کشمیر بول رہا تھا۔ کشمیر کی بات سنی چاہئے۔ دوسری طرف بھارت نے ظلم اور بربریت کی انتہاء کر رکھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے نئے فیصلے کے تحت پیدا ہونیوالی صورتحال نے کشمیر کے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ کہاوت بن چکی ہے کہ کبھی نہ حل ہونے والا جو بھی مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر ہے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘ نسل کشی کی بجائے کشمیریوں کو ان کا وطن ملنا چاہئے ۔ ہندوستان کے حکمران دن رات کشمیر کے مسئلے کو بگاڑنے میں مصروف ہیں ۔ کسی بھی ملک کا سربراہ تقریر کر رہا ہو تو درمیان میں بولنا ٹھیک نہیں ہے اور اسے آداب کی خلاف ورزی بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی کہ ایک سنجیدہ مزاج اور مدبر سیاستدان سردار تنویر الیاس خان کو درمیان میں بولنا پڑا۔ کشمیر کے دکھ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کوں بہت دکھ دیئے ہیں اور وہ کشمیر کے مسئلے کی طرف آنے کو تیار نہیں۔ اسی اثناء میں پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے کشمیریوں کو پیار ملنا چاہئے اور کشمیریوں سے غیروں والا سلوک نہیں ہونا چاہئے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر کشمیری کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کب حل ہوگا ؟ کشمیریوں کی تین نسلیں اسی آس میں ختم ہو گئیں کہ کشمیر آزاد ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے آزادی کی نعمت کو دیکھیں مگر کشمیرکا مسئلہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے‘ جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ کی ضرورت ہے کہ خدانخواستہ کشمیر کے مسئلے پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پوری دنیا کیلئے مہلک ہوگی۔ عالمی برادری کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایسے لگتا ہے کہ عالمی برادری بھی سوئی ہوئی ہے۔ مسلم ممالک بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے۔
چھوٹے چھوٹے مسائل پر عالمی برادری نوٹس لیتی ہے مگر کشمیر پر خاموشی کیوں؟ پاکستان کے اہل دانش امریکا سمیت پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق بارے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہیں تو امریکا اس کا نوٹس لیتا ہے لیکن اب جبکہ دنیا کو خوب معلوم ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور مسلسل کرفیو کے عمل کے باعث یہاں انسانی صورتحال طاری ہے ، اس کیفیت میں بھارت سرکار کی سرکوبی اور اس پر دباؤ بڑھانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عمل خود امریکی کردار کے آگے بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے ۔ ایک جانب امریکی صدر کشمیر پر ثالثی کے خواہاں ہیں تو دوسری جانب وہ اپنا وزن بھارت کے ساتھ ڈال کر پاکستان کو پیغام دے چکے ہیں کہ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جانی چاہئے .
لیکن انہیں یہ مت بھولنا چاہئے کہ اس طرح سے کشمیر کا مسئلہ دبنے والا نہیں کیونکہ اگر حکومتیں مصلحت کا شکار ہو کر بھارت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتیں تو دنیا کی رائے عامہ میں یہ تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ بھارت کشمیر پر غاضبانہ قبضہ قائم کر کے کشمیریوں کی آواز کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے اور کشمیر بد ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے ۔ عالمی برادری کو ہر صورت کشمیر کے مسئلے پر ایکشن لینا ہوگا۔ خصوصاً مسلم امہ اس بارے خاموش نہ رہے کہ جو وقت کشمیریوں کا ہے ‘ وہ سب پر آ سکتا ہے۔ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے 31 سال کے بعد صوبے میں بلدیاتی الیکشن کرائے اور یہ عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہوا اور عالمی برادری نے اس عمل کی تعریف کی۔
بھارت اور اس کے حواریوں کو کشمیر کی بہتری کا کوئی عمل اچھا نہیں لگتا۔ بہت مسائل ہیںکشمیر کے عوام سکھ حکمرانوں کے تقسیم کے وقت غلط فیصلے کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی کرسی، اقتدار کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ جبکہ کشمیر اور ملک کے دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹا دی گئی ہے۔
تبصرہ لکھیے