صحت کا نعم البدل کچھ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ حدیث میں بھی صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت سمجھنے کے لئے ہدایت ہے کیونکہ صحت کی حالت میں ہی اعمال صالحہ کی انجام دہی بہتر طریقے سے ممکن ہے۔
میڈیکل سائنس نے جتنی تیزی سے اپنے تئیں ترقی کی ہے اس سے زیادہ تیزی سے عجیب وغریب بیماریوں نے جنم لے کر شعبہ طب کے لئے چیلنجز کھڑے کر دیئے ہیں۔دماغی کمزوری،یادداشت کی کمی،ٹینشن،ڈپریشن اور نتیجے کے طور پر جنم لینے والے جسمانی امراض مثلا دل،دماغ،معدے،جوڑوں کے مسائل ،دمہ،ٹانگوں میں درد وغیرہ جنم لیتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ذہنی امراض کا باعث صرف تیز رفتار دور اور وقت کی کمی کے باعث اپنی زندگی میں انہماک اور باہمی تعلقات میں سرد مہری ہے یا شر اور فساد کی طرف جھکاؤ،بدامنی اور افراتفری کی فضاء قائم کر کے اپنے مفادات کے حصول کی خواہش اور خود غرضی، ذہنی امراض کی بڑھتی شرح کی بنیاد وجہ ہے۔جہاں تک شر کا تعلق ہے تو اس کا مادہ ہر انسان میں رکھا گیا ہے اور انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ شر کی آواز پر لبیک کہتے،نفس کے شر میں مبتلاء ہو کر اپنے آپ کو اور دوسروں کو ذہنی امراض میں مبتلاء کرتا ہے کہ خیر کی آواز پر لبیک کہہ کر صلح و امن آشتی کا پیغامبر بننے کو ترجیح دیتا ہے۔
سیروٹونن، آکسیٹوسین اور ڈوپامین نامی کیمیائی مادوں کا مناسب مقدار میں نہ بننا انسان کی ذہنی بیماری کا باعث بنتا ہے اور سر دست یہ مادے خوشی،سکون یعنی نیکی کی روش پر چلنے سے متوازن مقدار میں خارج ہوتے رہتے ہیں اور انسان کو خوش و خرم اور متوازن شخصیت کا مالک بنا دیتے ہیں لیکن اگر فساد،شر بدامنی پھیلانے میں دلچسپی لی جائے،حسد،برے گمان،
تکبر،غص،عناد،بغض کو اپنے اندر جگہ دی جائے تو یہ کیمائی مادے پریشانی کے باعث کم مقدار میں خارج ہوتے ہیں یا فطری روش سے متضاد راہ اختیار کیا جانا انہیں ناراض کر دیتا ہے.
اور وہ مادے خوامخواہ خارج ہو کر غلط کار انسان کو خوشی اور اطمینان کی کیفیت سے مالا مال نہیں کر سکتے۔نتیجتا انسان کی علم وعمل،صحت،اولاد مال متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں،ذہنی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں،جسمانی قویٰ جواب دینے لگتے ہیں اور انسان پر بڑھاپا جلد آ جاتا ہے۔ذہنی صحت،خوشی اور لمبی زندگی کا یہ راز اس حدیث سے بھی عیاں ہوتا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص کو اچھا لگتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے اور اس کی زندگی لمبی کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے(بخاری،مسلم)
اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو صلح و آشتی کے رویے کو فروغ دیجئے۔کہا جا سکتا ہے کہ غلط کاری اور منفی رویے ہی اگر ذہنی امراض کا سبب ہیں تو اچھا اور مثبت سوچنے والے انسان کیوں ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں تو سادہ سی بات ہے کہ جیسے بری صحبت انسان کے لئے زہر قاتل ہے اسی طرح فساد و بد امنی اور اذیت دہ رویے بھی دوسرے انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حاسد کے حسد اور مخلوق کے شر،وسوسے،لوگوں اور جنوں کے شر سے بچنے کے لئے تعویذات سکھائے گئے ہیں اور صبح شام کے اذکار ٹانک کے طور پر بتائے گئے ہیں۔
لہٰذا،دوسروں کی زندگی اجیرن کرنا چھوڑ دیجئے تا کہ آپ کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے۔نا سمجھ اور نادان اور شر پسند لوگ غلط جذبات کو اپنے اندر نمو دے کر اپنا اور دوسروں کا سکون غارت کرتے ہیں اور اتنی موٹی سی بات نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے کہ رزق کا اضافہ،نعمتوں کا حصول تو صلہ رحمی میں مضمر ہے۔ائیے صحت مند رویوں کو فروغ دیجئے اور ذہنی و جسمانی امراض سے چھٹکارا پائیں۔خوش رہیئے،خوشیاں بانٹیں۔
تبصرہ لکھیے