کراچی: شرح سود میں تیزی سے اضافہ کے نتیجے میں معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ منڈلانے لگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جس تیزی کے ساتھ شرح سود بڑھائی ہے، اس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔
26 نومبر کو مرکزی بینک نے بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کردی۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کے مختصر مدتی نتائج، طویل مدتی نتائج سے بہرحال کم ہوں گے۔ ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگاروں کو اس پر شبہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں بڑھنے والے افراط زر کو جارحانہ مانیٹری پالیسی اقدامات کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ نئی ہے، تاہم آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے کہ معاملات کو فوری سدھارا جائے۔
16فیصد شرح سود بہت زیادہ ہے، اس صورت حال میں پالیسی بنانے والوں کی نظریں جن مثبت باتوں پر مرکوز ہوسکتی ہیں، وہ حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ہے، خام تیل کی قیمت 120ڈالر سے کم ہوکر 80 ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے، علاوہ ازیں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی بہتری آئی ہے۔
قدرتی طور پر پاکستان ، ترکی کے ماڈل کو نہیں اپنا سکتا ہے، جسے ’’ترکونومکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے برعکس ترکی میں مرکزی بینک شرح سود میں مسلسل کمی کرتے ہوئے اسے صرف 9 فیصد کی شرح پر لے آیا ہے جبکہ وہاں افراط زر کی شرح 85 فیصد کی ہوش ربا سطح تک جا پہنچی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو نہ تو اس طرح کے اقدامات کرنے کے لیے آزادی میسر ہے نہ ہی اس کے پاس ترکی کی طرح سیاحت سے اربوں ڈالر کمانے جیسا کوئی ذریعہ ہے، جس پر تکیہ کیا جاسکے۔
حالیہ سیلاب کے باعث افراط زر کی شرح بڑھنے کے نتیجے میں ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب مزید بگڑ گیا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ شرح سود میں جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے، اس کی مثال گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ صرف 14مہینوں میں شرح سود میں 9 فیصد اضافہ کیا ہے اور افراط زر سے نمٹنے کے لیے ترکی کے مرکزی بینک کے بجائے امریکا کے فیڈرل ریزرو کی پیروی کی ہے۔
تبصرہ لکھیے