شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی بصیرت افروز شاعری میں جہاں فلسفہ خودی،مومن کی پہچان اور اللہ کی پہچان کا درس دیا وہیں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان القدس کے بارے میں بھی اشعار لکھے ۔آپ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلاے جاتے تھے۔
بہت خوبصورت انداز میں تعریف کرتے ہیں
یا صاحب الجمال و یا سیدالبشر
من وجہک الکبیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناکما کام حقہ
"بعد از خدا بزرگ توی قصہ مختصر
ترجمعہ:اے صاحب جمال صلی اللہ علیہ وسلم اور اے انسانوں کے سردار
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور دے چاند چمک اٹھا
آپ کی ثناء کا حق ادا کرنا ممکن نہیں
قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بزرگ ہیں۔
ایک اور جگہآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان القدس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں
"ماعرفنا" نے چھپا رکھی ہے عظمت تیری
"قاب قوسین" سے کھلتی ہے حقیقت تیری
شان مدینہ: آپ کے محبوب شہر مدینہ کے بارے اقبال رح کے اشعار حقیقت میں سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعوی کرتے ہیں
ہوا خاک میں، اے ہواے محبت
مدینے کی جانب اڑا چاہتا ہوں
جوانوں کو سیرت کا پیغام:علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے جوانوں کو بیدار کیا،ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے مقصد سے روشناس کروایا اور ان کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی تعلیم دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کر کے ہی پہلے اپنی ذاتی اور پھر پورے جہاں کی پستی کو بلندی میں بدل سکتے ہیں۔فرما تے ہیں:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
قرآن کریم کا پیغام:محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن کریم لے کر آےتو اللہ کے اس پیغام سے نہ صرف اس دور تک بلکہ قیامت تک کے لیے انسانوں کی ہدایت رہنمای کا سامان مہیا ہو گیا۔اقبال بہت خوب صورت انداز میں فرما تے ہیں:
مکان فانی،مکین آنی،ازل تیرا،ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو،جاوداں تو ہے
مومن کو ہدایت: محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے لیے جو چاہا اقبال نے وہ سب اپنی شاعری میں سمو دیا۔ایک مومن کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنا لیں تاکہ دنیا و آخرت کی بھلا ئیاں حاصل ہوں۔فارسی کے اشعار ہیں:
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر
بحق دل بند وراہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رو
ترجمہ:اگر تو اس جہاں میں مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ سے دل لگا اور محمد کے راستے پر چل ۔ (ان کی شریعت اور اسوہ حسنہ پر چل) ایک اور مقام پر فرما تے ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
پاکستان کا خواب اور اسلامی ریاست: جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت جہالت کا دور دورہ تھا اور ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام سنایا تو انسانیت کو عروج نصیب ہوا۔اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہوا جس میں عین اسلامی قوانین نافذ تھے ۔ اسی سنت عظیم پر عمل کرتے ہوے اقبال نے بھی پاکستان کا خواب دیکھا، حقیقت میں وہ بھی ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتاےہوے قوانین کا نفاذ ہو۔ اقبال رح اپنی شاعری میں مسلمانوں کو اپنی ایک خاص پہچان رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔۔جو مغرب کی نقالی نہ کرتی ہو۔۔ان سے مشابہت نہ رکھتی ہو۔ فرما تے ہیں
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
حقیقت میں ان کا خواب تھا کہ یہ پورا جہاں ہی مسلم جہاں بن جاے اور ہر طرف اسلام کا ہی بول بالا ہو
چین و عرب ہمارا،ہندوستان ہمارا
مسلم ہے ہم وطن ہے ،سارا جہان ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی ازاں ہماری
آسان نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا
اقبال کا احساس ندامت: علامہ محمد اقبال رح نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے عشق کی بدولت روز حشر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہونے پر شرمندگی کا اظہار اپنی شاعری میں کیا ۔اپنی کتاب "ارمغان حجاز " میں فرما تے ہیں
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہاے من پزیر
ور حسابم رہ تو بینی نا گزیر
از نگاہ مصطفی پیماں بگیر
ترجمہ:اے اللہ!تو دو جہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں تیرا منگتا ہوں، روز محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانااور بخش دینا۔اگر میرے اعمال کا حساب نا گزیر ہو تو اسے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے چھپا رکھنا۔ایک اور مقام پر فارسی کے ہی اشعار ہیں
بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر
شو دے پردہ ہر پو شیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہ مارا
حساب من ز چشم ان نہاں گیر
ترجمہ:اے میرے رب!روز قیامت یہ جہاں پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جاے تو اس دن مجھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال ان کی نگاہوں سے چھپا کر رکھنا۔علامہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک دن میں ہزار بار درود و وسلام بھیجتے ۔
دنیا پر حکمرانی،حضور کی غلامی:علامہ اقبال نے دنیا پر حکمرانی کا فلسفہ حضور کی غلامی کو قرار دیا۔وہ اپنی شاعری میں پیغام دیتے ہیں کہ نبی کی غلامی کر کے ہی عرب و عجم میں بادشاہت حاصل کی جا سکتی ہے۔
جو کرنی ہے جہاں گیری محمد کی غلامی کر
عرب کا تاج سر پر رکھ خداوند عجم ہو جا
اسی طرح وہ اپنی نظم "ابلیس کی مجلس" میں لکھتے ہیں
الخدر آئیں پیغمبر سے سو بار الخدر
حافظ ناموس زن،مردآزما مرد آفرین
یعنی اس دنیا کے شیطانوں کو سب سے بڑا خطرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون سے ہے جو عورتوں کی عزت کا محافظ بھی ہے اور مردوں کو بھی غیر ت مند اور بہادر بناتا ہے۔
الغرض علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بہت ہی خوبصورت الفاظ میں حضور کی شان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو مقصد سے بھی جوڑا اور یہ آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے اور راضی ہو جاے۔آمین
تبصرہ لکھیے