ہوم << سورۃ کہف اور ایک مستشرق کے سوال کا جواب-عالم خان

سورۃ کہف اور ایک مستشرق کے سوال کا جواب-عالم خان

برلن [جرمنی] سے ایک وفد تعلیمی دورے پر آیا تھا جن کے ساتھ ہماری نشست رکھی گئی تھی مجلس میں اکثریت عمر، علم اور سابقوں کی اعتبار سے کبار ہی کی تھی. اگرچہ ہمارے نام کے ساتھ بھی ڈاکٹر کا سابقہ تعارف میں لیا گیا تھا.

لیکن کم عمری کی وجہ سے مجلس میں دوران گفتگو خاموش رہا اور تقریباً ہر فن کے ماہرین کو سنتا رہا۔ایک بوڑھے مستشرق پروفیسر نے کہا کہ کل جمعہ ہے اور مسلمان جمعہ کو سورہ کہف پابندی سے پڑھتے ہیں ہم نے جوابًا ہاں میں سر ہلا دیا. اگرچہ ہم مسلمان سورہ کہف پڑھنے کی پابندی نہیں کرتے جب موقع ملا تو پڑھ لی ورنہ اکثر یاد بھی نہیں رہتی . پروفیسر ہماری یک زبان ہاں کے بعد گویا ہوا کہ اچھا آپ لوگوں نے سورہ کہف کی آیتوں پہ کبھی غور کیا ہے؟ کیونکہ بعض آیات کی تلاوت سے انسان کنفیوز ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی کلام اللہ ہے یا نہیں؟؟

ہمارے تیور کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ جب خضر وموسی [علیہما السلام] محو سفر تھے تو ایک جگہ ان کی مہمان نوازی سے لوگوں نے انکار کیا تھا اور اس جگہ کو اللہ تعالی نے گاوں [قریۃ] سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

“حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا”. [۷۷] لیکن جب خضر اور موسی [علیہما السلام] کے درمیان راستے الگ ہو رہے تھے تو خضر [علیہ السلام] نے ان رازوں سے پردہ اٹھانا چاہا جس سے موسی [علیہ السلام] لا علم تھے اور اسی وجہ سے معترض بھی تھے تو محض چار [٤] آیات بعد اسی جگہ کو اللہ تعالی نے شہر [مدینۃ] سے تعبیر کرکے یوں ارشاد فرمایا ہے: “وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ”. [۷۲] اور آپ لوگ بہ خوبی جانتے ہیں کہ عربی زبان میں [قریۃ] اور [مدینۃ] کے معانی اور اطلاق میں کتنا فرق ہے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ پہلے قریۃ اور بعد میں مدینہ بن گیا تھا کیونکہ یہاں خضر [علیہ السلام] کا کلام نقل کیا گیا ہے اور اس کا تعلق اس وقت سے تھا تو یہ مدینہ تھا یا قریۃ؟؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس کو قریۃ اور خضر [علیہ السلام] کے مکالمہ میں اسکو مدینۃ کہا ہے۔

خیالات کا تبادلہ شروع ہوا اور ہر کوئی جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ بوڑھا جرمن پروفیسر قائل ہونے والا نہیں تھا. اللہ کے فضل وکرم سے راقم الحروف نے چند ایک ہفتے پہلے انہی آیات پر پروفیسر ڈاکٹر علی منصور کیالی کی تحقیق سنی تھی جو اس اعتراض کا مدلل اور تحقیقی جواب تھا جس سے قرآن کی تفاسیر بھی خالی ہیں، جواب جانتے ہوئے بھی کم عمری کی وجہ سے بات کرنے کی گستاخی نہیں کرسکتا تھا بہرحال کافی گفت وشنید کے بعد مجلس کے اختتامی لمحات تھے میں نے ایک پروفیسر سے عرض کی کہ اگر مناسب ہو تو میں اس کا جواب دیتا ہوں اس نے فورا حاضرین کو خاموش کیا اور مجھے بات کرنے کا موقع دیا. میں نے جو تحقیق پیش کی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

قابل احترام اساتذہ کرام! ہر علم کے مخصوص اصطلاحات ہوتے ہیں قرآن کی بھی اپنی اصطلاحات ہیں اس لیے ان آیات کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اصطلاحات اور اس کے مدلول جاننا ضروری ہے۔ قرآن لفظ [قریۃ اور مدینۃ] کا اطلاق آبادی کی قلت اور کثرت پر نہیں کرتا بلکہ قرآن نے [قریۃ] کا اطلاق اس جگہ پہ کیا ہے جہاں کے لوگوں میں مماثلت ہو یا قرابت ہو. مماثلت خواہ پیشہ میں ہو یا عقیدہ اور صفات میں. مدینۃ کا اطلاق اس جگہ پر کرتے ہیں جہاں مختلف لوگ آباد ہو جن کے درمیان نسل، پیشہ یا صفات وغیرہ میں فرق ہو.

مکہ المکرمہ کو ام القری اور یثرب کو مدینہ شاید اس لیے کہا گیا ہے، اگرچہ مکہ آبادی کے لحاظ سے یثرب سے زیادہ گنجان آباد تھا. اسی طرح جہاں اللہ تعالی ایک قوم کی تباہی کا زکر کرتے ہیں تو وہاں بھی قریۃ کا لفظ استعمال کرتے ہیں . یہاں سورہ کہف میں بھی اسکو قریۃ اس لیے کہا گیا کہ یہاں کے تمام باسیوں نے خضر اور موسی [علیہما السلام] کی مہمان نوازی سے انکار کیا تھا اس لیے یہ سب ایک جیسے تھے لیکن جب یتیم بچوں کی دیوار کی اصلاح کی بات کی جاتی تھی تو ان کے والد کے بارے میں کہا گیا کہ [وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا] کہ وہ صالح انسان تھے، دیگر لوگوں کی طرح نہیں تھے. اب چونکہ صفات بدل گئیں سب ایک جیسے نہیں رہے اس لیے اس رجل صالح کی ذکر کی وجہ سے اس پر [قریۃ] کے بجائے [مدینۃ] کا اطلاق کیا گیا۔

حاضرین کے چہروں پر مسرت اور زبانوں پر دعائیہ کلمات تھے جرمن پروفیسر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ان آیات پر دوبارہ غور اور مزید تحقیق کرنے کا کہہ کر مجلس برخاست ہوا۔

Comments

Click here to post a comment