آج سے اڑھائی سو سال پہلے لیگزنکٹن Lexington کے مقام پر، رات کے وقت ایک گولی چلی تھی، جس گولی سے ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت ہوگئی، بوسٹن میں تعینات برطانوی فوجیوں نے جوابی فائر کیا اور امریکہ کی آزادی کے لیۓ لڑنے والی ایک خفیہ تنظیم کے کُچھ لوگوں کو ہلاک کردیا، برطانوی فوجیوں کا خیال تھا کہ ان کے فوجی پر گولی اس خفیہ تنظیم کی طرف سے چلائی گئی تھی۔ یہ آج تک کوئی نہیں جانتا کہ وہ پہلی گولی کس نے چلائی تھی، جس نے برطانوی فوجی کی جان لی تھی؟ تھی تو یہ ایک گولی، مگر اس کی گونج پوری دنیا نے سُنی، برطانوی شہنشاہ جارج سوم کی سلطنت اس گولی کے بعد لرز اٹھی۔ اس گولی سے امریکہ کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی جس کا اختتام امریکہ کی برطانوی تسلط سے آزادی پر ہوا۔ امریکہ دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد مُلک کی حیثیت سے ابھرا، اور پھر دنیا کی ایک سپرپاور بنا۔ اس گولی کے بارے میں یہ جملہ تاریخ میں درج ہوگیا کہ “shot heard round the world”
دوسری ایسی گولی جس کی گونج ایک بار پھر پوری دنیا نے سُنی وہ گولی بھی امریکہ میں چلی۔ پاپولر امریکی صدر جان ایف کینیڈی ریاست ٹیکساس کے دورے پر تھے ، اور بغیر چھت کی ایک کُھلی کار میں سفر کررہے تھے،کہ ایک سنائپر نے ان پر گولی چلائی تھی، جو ان کی گردن پر لگی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ جان ایف۔ کینیڈی نے امریکہ کو ایک ایسی ممکنہ ایٹمی جنگ سے بچایا تھا کہ اگر وہ جنگ چھڑ جاتی تو کم ازکم دس کروڑ امریکی مارے جاتے، کیوبن میزائل کرائسسز سے امریکہ کو جس دلیری اور دانشمندی سے انہوں نے نکالا تھا، اس بنا پر پورے امریکہ اور مغرب میں انہیں منفرد اور اعلی مقام حاصل تھا، ان پر چلنے والی یہ گولی بھی پوری دنیا نے سُنی تھی۔
امریکی صدور ابراہام لنکن, جیمز گار فیلڈ، اور ولیم میکنلی بھی گولی کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گۓ، تھیوڈر روزویلٹ، اور رونلڈ ریگن پر بھی گولی چلائی مگر وہ زندہ بچ گۓ۔ نیپال کے شاہی خاندان پر چلائی جانے والی گولیوں کا تو شمار ممکن نہیں جس میں پورا شاہی خاندان جان سے گیا۔ مصر کے انور سادات پر چلائی جانے والی گولی بھی مشرق وسطی اور دنیا نے سُنی۔ اسرائیلی وزیراعظم آئزک رابن ایک یہودی نوجوان کی گولی کا نشانہ بنے۔ سعودی فرمانروا شاہ فیصل مرحوم پر ان کے اپنے بھتیجے کی طرف سے چلائی گئی گولی بھی پوری دنیا اور خصوصاً عرب دنیا میں سُنی گئی تھی۔ابھی حال ہی میں جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو ایبے کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
برصغیر میں امرتسر، جلیانوالہ باغ کے مقام پر لیفٹینینٹ گورنر مائیکل فرانسس او ڈائر کے حکم پر چلائی گئی گولیوں کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ مہاتما گاندھی کی جان لینے والی گولی سے لے کر گولڈن ٹیمپل امرتسر میں سکھ راہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو لگنے والی گولی بھی کسی کو نہیں بھولی، پاکستان میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو لگنے والی گولی بھی ابھی تک یاد ہے۔ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر گولی چلانے والے کی وڈیو آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہے۔ لیکن ایک ایسی گولی جو ان سب گولیوں کو پیچھے چھوڑ گئی اور جس کی گونج ساری دنیا نے نہ صرف سُنی بلکہ اس کا اعتراف اور جواب بھی دیا، وہ گولی خیبر پختونخوا ہے ضلع سوات میں سکول جانے والی ایک چودہ سالا بچی کو لگی جس کا نام ملالہ یوسف زئی ہے۔ یہ گولی ملالہ کی جان تو نہ لے سکی، مگر اس گولی نے پاکستان اور ملالہ کو پوری دنیا میں زندہ جاوید کردیا، ملالہ یوسف زئی کا نام جرآت، بہادری کی علامت ، اور دنیا میں بچیوں کے لیے تعلیم کا استعارہ بن گیا۔ امن کے نوبل پرائز سے لے کر شاید ہی کسی مُلک یا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا اعزاز ہو جو ملالہ کو نہ ملا ہو، اور شاید ہی کوئی اور انسان اس کرہ ارض پر ایسا ہو جس نے ملالہ جتنے عالمی اعزازات حاصل کیے ہوں۔ ۔
کل بروز جمعرات 3 نومبر کو ایک گولی وزیرآباد، پنجاب میں ایسی چلی ہے جس کی گونج بھی پوری دنیا میں سنائی دی ہے، عمران خان پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں، ایک ایٹمی مُلک کے سابق وزیراعظم پر گولی چلنا عام بات نہیں۔ عمران خان پاکستان میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں، اس گولی چلنے سے ان کروڑوں دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئی ہیں۔ لوگوں میں شدید غم و غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس گولی کے سیاسی اثرات کہاں کہاں تک اور کن کن لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ کیا یہ گولی کسی کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی کہ نہیں، کیا یہ گولی عمران خان کو ایک بار پھر اقتدار کے سنگھاسن پر لا بٹھاۓ گی کہ نہیں، کن کن لوگوں کی سیاست صرف اس ایک گولی نے مٹادی ہے یا بچالی ہے، یہ آنے والا وقت بتاۓ گا۔ جنگ، محبت، اور سیاست میں سب جائز ہوتا ہے، گولی بھی اور لاٹھی بھی۔ کہا یہ ہی جاتا ہے کہ گولی لاٹھی کی سرکار نہیں چلے گی، نہیں چلے گی، مگر اکثر ہوتا اس کے برعکس ہے۔
یہ تو وہ گولیاں ہیں جو تاریخ میں یاد رکھی گئیں یا یاد رکھی جائیں گی، مگر ایک گولی ایسی بھی ہے، جو یہ بھی معلوم ہے کس نے چلائی اور یہ بھی معلوم ہے کہ کس کو لگی، مگر نہ یہ گولی یاد رکھی جائے گی اور نہ اس گولی سے مرنے والا یاد رکھا جاۓ گا۔ یہ وہ گولی ہے جو عمران خان کے ساتھ اسی دن معظم قیصر کو لگی، اور معظم قیصر کی جان لے گئی، جس کی موت کے بعد تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو آپ نے ایک وڈیو کلپ میں اپنے باپ کی لاش کے ارد گرد دیکھا ہوگا، یہ گولی عام آدمی کو لگی ہے، شاید صرف یہ تین بچے اس گولی کو نہ بھول سکیں کیونکہ یہ گولی ان کے باپ کی جان لے گئی ، گولی خاص تھی، جس کو لگی وہ عام تھا، آدمی آدمی میں فرق ہوتا ہے، گولی گولی میں فرق ہوتا ہے۔ خیر معظم قیصر اکیلا نہیں، اس جیسے لاکھوں نہیں کروڑوں سپاہی اور افسر جنگوں میں اپنے اپنے مُلکوں کے لۓ جام شہادت نوش کر گئے، مگر سب یاد نہیں، کُچھ یاد نہیں۔ اگر سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا تو کیا تاریخ کے سینے میں دل ہوتا ہے؟ نہیں ہوتا، یہ تاریخ کی مرضی ہے کہ کسے یاد رکھے، اور کسے بھلادے۔
تبصرہ لکھیے