ہوم << عرفان ذات-قمر النساء قمر

عرفان ذات-قمر النساء قمر

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔یہ ایک ایسا جملہ ہے کہ اگر اسے دل سے ادا کیا جائے تو تکلیف مٹھاس میں بدل جاتی ہے۔جب درد تہ در تہ بہت اندر تک سرائیت کر جائے،تو جی چاہتا ہے کہ یہ تکلیف کسی طرح زائل ہو جائے، تب آنکھیں بند کر کے رب کا شکر ادا کریں، تو ساری تکلیف آنکھ کے کناروں سے نکل جاتی ہے۔ ایک سکون اندر اٹھتے ہوئے طوفان پر قابو پا لیتا ہے۔

اور پھر بندہ بے اختیار کہتا ہے ’’جے سونڑا میرے دکھ وچ راضی تے سکھ نوں میں چلھے پاواں،،۔ یعنی میرا رب اگر میرے دکھ میں راضی ہے تو سکھ کو میں چولھے میں ڈالنا پسند کرتا ہوں۔ محبت تو ہے ہی سراپا رضا جو محبوب کی چاہت  وہی محب کی خوشی بن جاتی ہے۔ اور یہ خیال کہ میرا رب میرے ساتھ ہے۔ہر تکلیف ہر کمی ہر رشتے کی بے نیازی کو بے حیثیت کر دیتا ہے۔

اس دنیا اور دنیا کے رشتوں کی اوقات ہی کیا ہے۔ بے فیض اور مفادات کے بجاری اس دنیا کے مکینوں میں رکھا ہی کیا ہے۔ کتنے قیمتی لمحے ضائع کر دیتے ہیں ہم ان مفاد پرست لوگوں پر کتنے قیمتی احساس ان کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کتنے قیمتی آنسوؤں کو بے دردی سے ضائع کرتے ہیں۔لیکن جزبوں کو روندنے والوں کو احساس تک نہیں ہوتا، اور اس سارے سود و زیاں میں ہمیں بھی احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم خود کو بھول بیٹھے ہیں۔ اپنی ذات کو ہم پرکھتے ہی نہیں اپنے اندر جھانکتے ہی نہیں پر اے انسان تیرے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا، تو اسی کے لائق ہے۔

تو خود ذمہ دار ہے اپنی تمام تر بے توقیری کا،جب تم نے خود کو ہی قیمتی نہ سمجھا تو کیوں کوئی تمہیں اہمیت دیتا۔تو کتنا قیمتی ہے تجھے احساس تک نہیں تیرے اندر وہ راز ہے جو پہاڑ بھی نہ اٹھا سکے سمندر بھی جس کی تاب نہ لا سکے۔ تو کتنا قیمتی ہے،تمام تر مخلوقات یہاں تک کہ جنات اور فرشتوں سے بھی افضل مخلوق خدا نے تجھے بنایا۔ پر افسوس تو ہی نہ سمجھ پایا اپنی ورتھ،کو اپنے مقام، کو اپنی صلاحیتوں،کو تو تو وہ تھا جس کا قلب خدا کا مسکن ہے، اس سے بڑی تیری کیا قیمت ہو گی،اس سے بڑھ کر تیرا کیا مقام ہو گا اس سے زیادہ تو کیا چاہ سکتا ہے۔ کبھی تو نے سوچا وہ خدا تیرا ہو سکتا ہے۔اے ناداں وہ تیرا ہو جاتا تو تجھے اور کیا چاہیے تھا۔ کتنا کج نظر ہے تو، رزق کے مالک کو چھوڑ کر تو رزق مانگتا ہے۔وہ رزق جو اس نے لکھ دیا جس میں کمی بیشی اب نہیں ہو سکتی۔

اس نے تیرے رزق کا ذمہ لیا تیری نادانی کہ انتہا کہ تو رزق کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ اس کے مالک پر تیری نگاہ کیوں نہیں جاتی۔مانگنے والی ذات تو صرف وہ ہے تو اسی سے اسی کو کیوں نہیں مانگ لیتا، ناداں تیرا حال تو یہ ہے کہ  بادشاہ تجھے کہتا ہے مانگ جو مانگنا ہے، اور تو کہتا مجھے ریوڑی دے دیں مجھے ٹافی دے دیں۔ یہ ریوڑی اور ٹافی کہاں اور بادشاہ کہا۔ دکھ تو یہ ہے کہ تو نے اسی پر بس نہیں کی اپنی کم ظرفی تو دیکھ کہ ریوڑی ٹافی کے لیے تو نے کئی خدا بنا لیے۔ تو شرک خفی میں خود کو ہلاک کر رہا۔ اور اس ہوس نے تیرے قلب کو سیاہ کر دیا۔ اور اس قابل نہ چھوڑا کہ اس پر وہ تجلی فرماتا۔کیونکہ وہ تو پاکیزہ دلوں پر تجلی فرماتا ہے۔ اپنا نقصان تو دیکھ ایک سجدہ نہ کر کے تو کئی سجدے کر رہا۔

ہاں یہ ہماری سزا ہے ایک کے سامنے نہ جھک کر ہم ہر ایک کے سامنے جھک رہے ہیں۔ غرض نے ہمیں اندھا کر دیا۔ اور دنیا کی محبت نے ہمیں تباہ کر دیا۔ یہ دنیا ہمارے لیے بنائی گئی تھی،ہم اس دنیا کے لیے نہیں بنائے گئے، یہ جہاں  ہمارے لیے ہے ہم جہاں کے لیے نہیں ہیں۔یعنی ہم قیمتی تھے ہمارے لیے جو بنایا گیا تھا وہ ہمیں ہر صورت مل جانا تھا پھر ہمارا اس کے پیچھے خوار ہونا چہ معنی دارد۔ اس کا مطلب ہے ہم نے زباں سے تو اقرار کیا مگر قلب و عمل کے مومن نہ بن سکیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوبصورت مثال دی۔

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

یہ دنیا اور اس  میں جو کچھ ہے وہ ہمارے لیے ہی بنایا گیا ہیں۔ لیکن ہم تھوڑے پر راضی ہو گئے۔ نہایت حقیر چیز پر ہم نے اکتفا کر لیا۔ وہ مومن جس میں آسمان کی بلندیاں پناہ ہیں، اس کے لیے کافر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ قوم تو پیسے کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتی ہے۔آہ صد آہ ،کیوں ہمیں یہ سننا پڑا صرف اس لیے کہ ہم عملاً مومن نہ رہیں۔ ہم نے اس حقیر دنیا کو ہی اپنا سب کچھ مان لیا۔ہمارا یقین کمزور ہے۔

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئین تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں

آہ صد افسوس ہے، تجھ پر کتنا گھاٹے کا سودا کیا تو نے، اے میرے بھائی۔تو کتنا اعلی تھا اور تو نے خود کو اسفل بنا لیا تو نے دنیا جیسی اسفل اور حقیر چیز کو پسند کیا۔ کبھی غور تو کر یہ دنیا اور دنیا والے ان کے پیچھے کیا کچھ نہیں کیا تو نے۔ملا کیا سوائے درد اور ٹھوکروں کے سوائے محرومیوں اور تکلیفوں، کے اس سے آدھا بھی تو اپنے رب کے لیے کرتا تو تو،دیکھتا اپنی قدر و قیمت کو، تو جو دنیا کے ہر بازار میں کوڑیوں کے مول بھی نہیں بکتا، وہاں تیری قیمت کیا ہے۔پر افسوس تو نے خالق پر مخلوق کو ترجیح دی اور خود کو ظلمتوں کے سپرد کر دیا۔ تو اپنی مرضی کر کے انسان سے حیوان بن گیا۔ تو نے خود کو رب کی مرضی پر نہیں چھوڑا تو تجھ پر ہر ایک کو حکمران بنا دیا گیا۔تو ہر خاص و عام کے سامنے جھک جاتا ہے۔ ہر کلرک منشی ہر کر سی والے کے سامنے جھک جاتا ہے،  اگر جو تو مرد مومن ہوتا تو یہ سب تیرے سامنے جھکا دیے جاتے۔ پر یہ دیکھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے۔ اور یہ بصیرت  تیرے اندر موجود ہے اسے پالش کر اور خود کو پہچان۔ اپنی خودی کو بلند کر رب کے سامنے عاجز ہو جا اور طاغوت کے سامنے مرد مومن بن ۔

علم کی حد سے پرے، بندہ مومن کے لیے

 لذت شوق بھی ہے، نعمت دیدار بھی ہے

اٹھ اور اپنے رب کے لیے جینا سیکھ،اس شان سے جی کہ جو کہتے ہیں، یہ تو اپنی ماں کا سودا کرنے والی قوم ہے اس پر واضح کر دے کہ مسلمان قوم کتنی غیور ہے۔ مرد مومن کے لیے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، اسے بتا کہ تو مرد مومن ہے اور مرد مومن دنیا کا بجاری نہیں ہوتا۔

جہاں اگرچہ دگر گوں ہے، قم باذن اللہ

وہی زمیں، وہی گردوں ہے، قم باذن اللہ

  تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے

مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا

نفسانی خواہشات کے بدلے اپنا سودا نہ کر اپنی قیمت اتنی کم نہ لگا اپنی جان کا سودا صرف اپنے رب سے کر۔                  
                                                      
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور

قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات

جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں

اس سے اسی کو طلب کر اسی کو اپنا مطلوب بنا اسی سے اپنی امید لگا اسی پر بھروسہ کر، اس پر یقین رکھ جو تیرا ہے وہ تجھ تک ضرور آئے گا۔ مانگنے کے قابل ذات صرف اس کی ہے۔ باقی تو پہلے  ہی سب تیرے لیے ہیں۔اگر تو اسے چاہیں تو وہ   تیرا ہو سکتا ہیں۔اور جب وہ تیرا ہو گیا تو پھر یہ جہاں اور اس میں جو کچھ ہے سب تیرا کر دیں گا۔ وہ کہتا ہے اس کے لیے صرف ایک کام کر میرے محبوب کی اطاعت کر اور اطاعت ایسی کرنا کہ اس میں چوں چرا نہ ہو، کامل اطاعت کر کیونکہ ان کی اطاعت میری اطاعت ہے ان سے محبت مجھ سے محبت ہے۔اسی بات کو شاعر مشرق کچھ ایسے بیان کرتے ہیں۔

    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

  یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

فیصلہ آپ کا خالق یا مخلوق فقر یا تونگری،قلندری یا سکندری، غیرت و حمیت یا وہ مردہ ضمیری جس پر پوری قوم کو یہ سننا پڑا کہ یہ قوم پیسے کے لئے ماں بھی بیچ دیتی ہے۔

سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندہِ مومن کی اذاں سے پیدا

Comments

Click here to post a comment