ہوم << عمران خان کو شیر شاہ سوری بننے سے کس نے روکا- محمد اکرم چوہدری

عمران خان کو شیر شاہ سوری بننے سے کس نے روکا- محمد اکرم چوہدری

سابق وزیراعظم عمران خان روزانہ ایک ہارے ہوئے شخص کی طرح گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ الزام تراشی کرتے ہیں تو کبھی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن آج بھی نہ وہ پوار سچ بولتے ہیں نہ پورا سچ سننے کی طاقت رکھتے ہیں۔

انہیں صرف وہی سچ پسند ہے جس میں سابق وزیراعظم کو ملک کا سب سے بڑا ایمان دار، سب سے زیادہ عقلمند ، سب سے زیادہ محب وطن اور سب سے بڑا مفکر بتایا جائے، صرف ایسا سچ پسند ہے جس میں یہ بتایا جائے کہ عمران خان آخری امید ہیں بس ان کے سوا کوئی حل نہیں اور نہ ہی خان صاحب کے علاوہ کوئی ملک کو مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی خان صاحب کی توجہ ان کے غلط فیصلوں کی طرف دلانے کی کوشش کرے تو اس کی حب الوطنی تو مشکوک ہو گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی ٹوئٹر برگیڈ ایمان بھی مشکوک بنا دے گی۔ بہرحال خان صاحب کے پاس اب الزامات شکوے شکایتیں ہی بچی ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اب وہ تازہ ترین شکوے کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور یہ جتنے شکوے کریں گے اتنا ہی خود کو ایک ناکام منتظم اور ناکام وزیراعظم ثابت کریں گے۔ کسی کو انہیں ناکام کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اب کہتے ہیں کہ "ساڑھے تین سال میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کر لیتے۔" خان صاحب کو آدھی نہیں پوری طاقت حاصل تھی، انہیں کسی نے روکا نہیں نہ کسی نے ان کے کام میں مداخلت کی بلکہ انہیں تو وہ طاقت بھی حاصل تھی جو شاید کسی جمہوری حکمران اور سیاستدان کو نصیب نہ ہوئی۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے اس کا اظہار وہ کرتے رہتے تھے اس وقت وہ اس طاقت کو "ایک پیج" پر ہونا قرار دیتے تھے آج اس کتاب کو آگ لگا چکے ہیں تو اسے مداخلت یا بے بسی قرار دے رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کو تو ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وہ کسی کو اپنے کام میں مداخلت نہیں کرنے دیتے، وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوانِ وزیراعظم پہنچے، انہیں ہمیشہ عوامی حمایت حاصل رہی اگر یہ سب کچھ تھا تو پھر ساڑھے تین سال تک فیصلے کون کرتا رہا، اگر فیصلے کہیں اور سے ہو رہے تھے تو پھر بحثیت وزیراعظم عمران خان کیا کر رہے تھے، انہیں شیر شاہ سوری بننے سے کس نے روکا تھا۔ بظاہر تو ایسا کچھ نظر نہیں آتا حالانکہ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا تھا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر کنٹرول تھا، لوگوں کو نوکریاں مل رہی تھیں، معیشت ترقی کر رہی تھی، بیرون ملک سے پاکستانیوں کے اربوں ڈالر بھیج دیئے، پاکستان کی ایکسپورٹ میں تاریخی اضافہ ہوا اگر یہ سب ہو رہا تھا تو کیا یہ فیصلے بھی کوئی اور کر رہا تھا۔

درحقیقت اب عمران خان صرف عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، انہیں کسی نے نہیں روکا، البتہ اگر کسی نے غلط فیصلوں پر اپنی رائے دی تو خان صاحب نے اس سے دوری اختیار کی، کیا خان صاحب قوم کو یہ بتائیں گے کہ کیا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وزرائے اعلیٰ کا انتخاب انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا، کیا تمام بڑے فیصلے وہ اور ان کی کابینہ نہیں کرتی رہی، کیا امپورٹ ایکسپورٹ کے تمام فیصلے ان کی کابینہ نے نہیں کیے اگر یہ سب کچھ کابینہ میں ہوتا رہا تو کون تھا جو انہیں شیر شاہ سوری بننے سے روک رہا تھا۔

ڈویلپمنٹ کا کوئی کام نہیں کیا، خان صاحب اراکینِ قومی اسمبلی کو فنڈز دینے کے حق میں نہیں تھے۔ کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں لگایا، لاہور جیسے اچھے بھلے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا گیا اب شکوے شکایتیں اور غلط بیانی کر کے سادہ لوح لوگوں کے جذبات سے نہ کھیلیں۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ کب کب ان کی توجہ اہم مسائل، بدعنوانی اور غلط تقرریوں کی جانب دلائی جاتی رہی لیکن اس وقت کسی نے توجہ نہیں دی۔ اب صرف خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایسے بیانات انہیں زیب نہیں دیتے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ "ہم اربوں کے ٹیکس ڈیفالٹر پکڑتے تو پتہ چلتا وہ کہیں اور چلے جاتے اور کچھ اور حکم مل جاتا۔ بلاول کبھی ادھر جارہا ہے کبھی ادھر، اس کو اس طرح بھاگنے سے کیا ملے گا۔"

خان صاحب نے اتنے بڑے ٹیکس ڈیفالٹر پکڑے ہیں تو براہ کرم قوم کو ان کے نام بتائیں کہ وہ کون سے لوگ تھے جو اربوں ٹیکس چوری کرتے ہیں اور کون انہیں بچاتا ہے۔ ان ٹیکس چوروں کے نام قوم ہے سامنے رکھیں یہ قومی خدمت ہے۔ چونکہ یہ جملہ عوامی جذبات کو بھڑکاتا ہے اس لیے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بولنے میں کوئی حرج نہیں اگر ان سے نام مانگے گئے تو یقیناً ان کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ اس نے مشکل وقت میں جو کام کیے ہیں وہ آپکی حکومت اچھے وقت میں بھی نہیں کر سکی، دنیا سے تعلقات خراب کرنے کی وہ بارودی سرنگیں جو آپکی حکومت بچھا کر گئی تھی وہ نہیں ناکارہ بناتے ہوئے پاکستان کو دنیا سے جوڑ رہے ہیں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد اور مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارتی مظالم پر متعلقہ فورمز پر آواز بلند کر رہے ہیں۔

خان صاحب آپ فرماتے ہیں قوم بھیک مانگنے سے نہیں بنتی درست فرماتے ہیں لیکن اپنے دور حکومت میں جو پیکج آپ وصول کرتے رہے ہیں انہیں بھیک کیوں نہیں کہا جا سکتا، کیا شوکت خانم چندے پر نہیں بنا، کیا اس کے معاملات کو چلانے کے لیے آج بھی فنڈ ریزنگ نہیں ہوتی۔ کیا یہ بھیک نہیں ہے۔ اس قوم پر رحم کریں۔ اسے مزید تقسیم نہ کریں امیر اور غریب میں تقسیم یا وسائل سے محرومی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اگر آپکے دور حکومت اور شوکت خانم کے لیے چندہ جمع کیا جائے تو وہ ملک و قوم کی خدمت ہے لیکن اگر بلاول بھٹو زرداری سیلاب متاثرین کے لیے پیسے اکٹھے کرے تو وہ بھیک ہے۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ آپ کو شیر شاہ سوری بننے کا پوری موقع دیا گیا لیکن آپ نے کچھ اور بننا پسند کیا۔

Comments

Click here to post a comment