ہوم << صدر پاکستان عارف علوی کا اپنی جماعت پر عدم اعتماد-محمد اکرم چوہدری

صدر پاکستان عارف علوی کا اپنی جماعت پر عدم اعتماد-محمد اکرم چوہدری

سیاست تحمل مزاجی اور برداشت کا نام ہے، جذباتی سیاست سے وقتی طور پر عوامی مقبولیت تو مل سکتی ہے لیکن پائیدار کامیابی مشکل ہے۔ یہی کچھ ان دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس بدزبان ٹولے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔

عمران خان کو اس بند گلی میں لانے والے وہ چند لوگ ہیں جن کا عقل سمجھ سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے ان کے ساتھ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ بہرحال یہ ان کے سیاسی فیصلے ہیں اور نتائج بھی وہ خود ہی بھگتیں گے کیونکہ بیرونی سازش کے بیانیے سے اب ہوا نکلتی جا رہی ہے اور صدر پاکستان عارف علوی نے اس بیرونی سازش کے بیانیے کو دفن کر دیا ہے۔ صدر پاکستان عارف علوی سائفر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ "اس بات پرقائل نہیں سازش ہوئی ہے اس حوالے سے میرے شبہات ہیں۔ وہ خط چیف جسٹس کوبھیجا اس معاملے پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔

جناب صدر آپکا اقبال بلند ہو آپ ایوانِ صدر میں بیٹھے رہیں لیکن قوم کو یہ ضرور بتائیں کہ اگر آپ سائفر پر قائل نہیں تھے تو پھر جن دنوں یہ معاملہ چل رہا تھا آپ کا جھکاو¿ اپنی جماعت اور اس کے سربراہ کی طرف کیوں تھا، آپ تو قوم کے بڑے تھے، اہم عہدے پر موجود تھے، آپکو غیر جانبدار رہنا تھا، آپکو کسی جماعت یا سیاست دان کے بجائے اس ملک سے وفاداری نبھانا تھی کیوں آپ نے قوم کو اندھیرے میں رکھا، کیا آپ اتنے بے خبر تھے کہ سائفر کے نام پر بیرونی سازش کا ڈرامہ رچایا گیا اور آپ خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ آپ نے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیرونی سازش کے نام پر اندرونی سازش کو پروان چڑھایا۔ جناب صدر حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ آپ اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔

آپ نے ملکی مفاد کے بجائے سیاسی وابستگی کو اہمیت دی اور ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے لوگوں کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب صدر آڈیو لیکس نے پاکستان تحریکِ انصاف کے تمام بڑوں کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے کیا آپ اتنے بے خبر تھے کہ ان باتوں سے لاعلم رہے اور اگر آپ لاعلم تھے تو پھر حقائق جانے بغیر کیوں ملک کے مستقبل سے کھیلنے والے اس سیاسی گروہ کا ساتھ دیتے رہے جو ہر حالت میں انتشار چاہتا تھا۔ اگر عمران خان حکومت ختم ہونے کے بعد فرسٹریشن کا شکار تھے تو آپ کیوں ایک فرسٹریٹڈ شخص کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ آپ کا عہدہ تو اتحاد کا متقاضی ہے، آپ نے تو قوم کو متحد رہنے کا پیغام دینا تھا یہ آپ کن چکروں میں پڑ گئے۔

آپ عمران خان سے تو لاتعلقی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ آرمی چیف کی تعیناتی پر قوم کو درست پیغام نہیں پہنچا رہے۔ آپ کو آرمی چیف کی تعیناتی پر بات کرنے یا مشاورت کے مشورے دینے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اپنے کام پر توجہ دیں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والی کسی سیاسی مہم کا حصہ نہ بنیں۔ آپ غیر سیاسی بھی نہیں ہیں آپ خالصتاً ایک سیاسی اور ایک مخصوص جماعت کی نمائندگی کرتے اور ان کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں اور آپکا جھکاو¿ بھی ان کی طرف ہے یہ عمل آپ کے عہدے کے منافی ہے۔ جہاں تک لوگوں کو بٹھانے کی بات ہے اس کے لیے پہلے آپ اپنے لوگوں کو قائل کریں، کیا وہ اسمبلیوں کا حصہ ہیں اگر وہ اسمبلی کا حصہ نہیں تو پارلیمنٹ میں موجود لوگ کیسے ان کے ساتھ بات کریں گے۔

آپ کی جماعت تو اپنے علاوہ کسی کو سیاسی سمجھتی ہے نہ محب وطن ،اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے اپنے گھر کے معاملات یعنی اپنی سیاسی جماعت کو قائل کریں باقی لوگ تو سیاسی عمل پر یقین رکھتے ہیں انہیں قائل کرنا مشکل نہیں ہو گا اگر آپ واقعی اصلاح چاہتے تو اس کی ابتدا اپنی سیاسی جماعت سے کریں۔ پاکستان میں وسیع مشاورت سے کبھی اتفاق رائے نہیں ہوتا اور بالخصوص پی ٹی آئی کی موجودگی میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ کی جماعت گری ہوئی ہے لیکن پھر بھی آپ سیاسی حریفوں کو چور کہہ رہے ہیں کیا کسی کو عدالت نے سزا دی ہے۔

اگر آپ حکومت میں ہوتے ہوئے کسی کرپٹ کو سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکے تو دوسروں کو الزام دینے کا کیا فائدہ ہے۔ کیا ہوا، کیا ہونا چاہیے تھا، کیا کرنا ہے اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمانی جمہوریت ہے اگر کوئی جماعت کسی مشاورت کا حصہ بننا چاہتی ہے تو پہلے اسے پارلیمنٹ جانا پڑے گا۔ گھر بیٹھے کوئی کسی سے مشاورت کے لیے بھاگا ہوا نہیں آئے گا۔جہاں تک بیرونی سازش کے بیانیے کا تعلق ہے وہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ اگر صدر مملکت ہی آج تک قائل نہیں ہو سکے تو اتنے مہینوں سے عوام کو اس مشکوک بیانیے کے پیچھے بے وقوف بنانے والوں، اس سازش کے ذریعے ریاستی اداروں میں تقسیم کی کوشش کرنے والوں، سیلاب کے دنوں میں بیرونی دنیا کو پاکستان کی مدد سے روکنے والوں، سیاسی مفادات کے لیے ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار کرنے والوں سے کروڑوں لوگ ضرور پوچھیں گے کہ آخر ان کا قصور کیا تھا۔

کیوں ان کے مستقبل کو داو¿ پر لگایا گیا، کیوں پاکستان کے دفاعی اداروں کو جھوٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا، کیوں پاکستان کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے والوں کے اہلخانہ کو تکلیف پہنچائی گئی، کیوں پاکستان کے اداروں کو متنازعہ بنا کر شہریوں سے لڑانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ لوگ یہ سوال کریں گے اور پاکستان تحریکِ انصاف کے لوگوں کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف گانے ریلیز کر رہی ہے، ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ جلسے جلوسوں میں مصروف ہیں، ملک معاشی مسائل کا شکار ہے اور ان کی ہر روز ایک نئی آڈیو لیک طوفان برپا کر دیتی ہے۔ حکومت میں تھے تو توانائی بحران حل کرنے میں ناکام رہے بلکہ جاتے جاتے اور جانے کے بعد مزید مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

ہم موسم سرما کی طرف بڑھ رہے ہیں ایک طرف کھلے آسمان تلے سیلاب متاثرین ہمارے منتظر ہیں تو دوسری طرف سوئی سدرن گیس کمپنی نے موسم سرما میں لوڈشیڈنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ گیس لوڈشیڈنگ پندرہ اکتوبر سے پندرہ مارچ تک کرنے پر غور جاری ہے۔ یعنی پانچ ماہ تک ہمیں گیس لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ اطلاعات ہیں کہ یومیہ گیس لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چودہ سے سولہ گھنٹے تک ہو سکتا ہے، ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے دو سے تین گھنٹے تک گیس فراہم کی جائے گی۔ جو لوگ ملک اس حالت میں چھوڑ کر گئے ہیں انہیں الزام تراشی کرتے ہوئے کچھ خیال ضرور کرنا چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment