پاکستان زرعی ملک ہونے اور دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے کے باوجود ہم گندم میں خود کفیل کیوں نہیں ہوتے۔ اللہ تعالی نے ہمیں دریا دیے اور پہاڑوں سے بھی نوازا ہوا ہے۔ ہم ڈیم کیوں نہیں بناتے۔ پاکستان رب کریم کے فضل و کرم سے معدنیات سے مالا مال دیس ہے۔
ہم اپنی معدنیات سے فائیدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ دنیا کی ذہین ترین اقوام میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ ہم تعلیم یافتہ کیوں نہیں ہیں ، ہمارا تعلیمی معیار اتنا پست کیوں ہے۔ ہم کوئی قابل ذکر انڈسٹری کیوں نہیں لگا سکے۔ ہم چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی باہر سے منگوانے کے لئیے کیوں مجبور ہیں۔ پاکستان کی عوام اللہ تعالی کی ودیعت کی گئی نعمتوں کا ذکر کر کے اس طرح کےبہت سے سوالات ہر روز آپس میں ڈسکس کرتے ہیں۔ اور گھنٹوں لا حاصل بحث کرکے تھک چکنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اگلے روز پھر نئے سرے سے کسی ریسٹورنٹ ، ٹی اسٹال ، تھڑے ، چوراہے ، بیٹھک ، حجرے یا دفتر میں ان ہی اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کا ذکر چھیڑ کر بحث شروع کرتے ہیں۔
ہم صدارتی نظام آزما چکے ہیں۔ چار عدد فوجی نظاموں کا بھی ہم تجربہ کر چکے ہیں۔ جمہوریت بھی ہم چالیس سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ بھٹو کا اسلامی شوشل ازم بھی ہم پر راج کر چکا ہے۔ ہم نے ون یونٹ نظام کا مزہ بھی چھکا ہے۔ صوبائی نظام حکومت ہم چلا رہے ہیں۔ ہم نے بی ڈی ممبر سسٹم بھی دیکھ رکھا ہے۔ ہم ضلعی حکومتوں کا نظام کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ہم بیرونی اور مقامی ماہرین معیشت آزما چکے ہیں۔ مگر ہم آج بھی روزمرہ کی ضروریات کے لئیے دوسرے ممالک کے محتاج کیوں ہیں۔ دس کروڑ سے زیادہ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ پاکستانی غربت ، بیروزگاری کی وجہ سے اپنے عزیز و اقارب سے دور پردیس میں بے وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ کے صحافی حضرات بھی اللہ رب العزت کی پاکستان کی عنائیت کی گئی نعمتوں کے تذکرے کے لمبا چوڑا کالم لکھ کر لاکھوں روپے تو کما لیتے ہیں۔ مگر “ کیوں “ کا جواب غائب کر جاتے ہیں۔ چونکہ صحافی حضرات بھی سیاسی جماعتوں کی طرف داری میں گروپوں میں بٹّے ہیں۔ اس لئیے جو صحافی بہت تیر مارے گا تو اپنے گروپ کے مخالف سیاست دان پر ساری ناکامیاں تھوپ کر اپنے حامیوں سے واہ واہ سن کر کالم کی کامیابی پر خوش ہو جاتا ہے۔ جبکہ عوام کا “ کیوں “ صحافی صاحب کے سامنے کھڑے ہو کر صحافی صاحب کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔
صحافی حضرات کی اکثریت یہی کچھ کر رہی ہے۔ آئیے آج “ کیوں “ کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ کیوں کا جواب یہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنی غلطی کا ادراک ہی نہیں کیا ہے۔ جب تک ادراک نہ ہوگا تو احساس کہاں آئے گا۔ یعنی ہمیں سب سے پہلے اپنی غلطی کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ چھ لاکھ جانیں قربان کر کے اور کروڑوں لوگوں نے ہجرت کرکے پاکستان بنایا تھا۔ پاکستان بنانے کا جو مقصد عوام کو بتایا گیا تھا اور جس مقصد کے لئیے لوگوں نے جانوں کی قربانیاں دیں اور مہاجر ہونا قبول کیا تھا۔ وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا “ لا الہ الاللہ “۔
اب ہم اپنے پچھتر سالہ ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پاکستان میں دور دور تک “لا الہ الاللہ “ نظر نہیں آتا ہے۔ پاکستان کی معیشت سودی نظام پر مبنی۔ جسے میں ہمیشہ یہودی نظام کہتا ہوں۔ عدلیہ میں برٹش لاء رائج ہے۔ نظام تعلیم لارڈ میکالے کا ترتیب دیا ہوا چل رہا ہے۔ پولیس اور محکمہ مال کا سارا نظام فرنگی کا بنایا ہوا ہے۔ پچھتر سال آزاد ہونے کے بعد بھی پاکستان کی دفتری زبان انگلش ہے۔ تجارت کا سارا نظام انگریز کے اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ یعنی ہر سرکاری محکمہ اور ہر شعبہ زندگی میں انگریز قانون ہی کے تحت ہے۔ اور ہر روز بحث و مباحثہ میں الجھنے والے اور پاکستان کی ناکامی ذکر کر کے “ کیوں “ کی گردان کر کے اپنی بد قسمتی کا رونا رونے والے عوام ہر الیکشن میں ووٹ ان لوگوں کو دیتے ہیں جو اس ظالم فرنگی نظام کی حفاظت پر معمور ہیں۔
جبکہ مذہبی سیاسی جماعتیں پچھتر سالوں سے میدان سیاست میں موجود ہیں۔ اور ہر الیکشن میں عوام کے منت ترلے کرتی ہیں کہ عوام کے سارے مسائل کا حل نفاذ نظام اسلام میں ہے۔ مگر عوام اپنے آپ کو اگلے پانچ سالوں کے لئیے فرنگی نظام میں قید رکھنے اور کیوں کیوں کی رٹ لگا کر اپنے نصیب کو رونے کے لئیے فرنگی نظام کے محافظوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ پچھتر سالوں سے عوام کوہلوکے بیل کی طرح چکر کاٹ رہی ہے۔ تھانہ ، کچہریاں اور پٹوار خانہ میں فرنگی کے چیلوں سے پٹ رہے ہیں۔ ہماری غلطی دین اسلام سے دوری اور فرنگی کے غلاموں کی غلامی ہے۔
یہ ہے اس” کیوں “ کا جواب۔ جب تک عوام دین اسلام کی طرف رجوع کر کے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے کر منتخب نہ کرے گی۔ کیوں کیوں کا وظیفہ ہی کرتی رہے گی۔ خربوزوں کی رکھوالی گیدڑوں کے حوالے کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔ اللہ سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
چوہدری محمد ذوالفقار سِدّھو۔
تبصرہ لکھیے