میری عمر تب سات، آٹھ سال رہی ہو گی ، جب ہم گرمیوں کی چھٹیوں پر اپنے ’نانا مرحوم“ کے گھر ان کے گاؤں جایا کرتے تھے۔ ہمارا گاؤں شہر سے تقریباً چالیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔اس وقت وہاں رکشوں کا اتنا رواج نہیں تھا اور صرف ”تانگے“ چلتے تھے۔ ایسا تقریباً ہر بار ہوا کہ جوں ہی ہم گاؤں کے قریب پہنچتے، تانگے والا دریافت کرتا کہ ”آپ کن کے گھر آئے ہیں؟ “ ہم اپنے ”نانا“ کا نام بتاتے تو وہ نہ صرف کرایہ لینے سے صاف انکار کرتا بلکہ ہمیں سامان سمیت گھر تک چھوڑنے جاتا۔
راقم کو بچپن سے ہی نکتہ چینی کی عادت ہے! میں نانا سے جاکر پوچھتا کہ سب تانگے والے آپ کے ”دوست“ ہیں کیا؟ وہ ہم سے کرایہ کیوں نہیں لیتے؟ وہ مسکرا کر میری بات ٹال دیتے۔ نانا کے ساتھ دکان پر خریداری کرنے جاتا تو دکاندار پیسے لینے سے انکار کر دیتے، اکثر بہت اصرار سے ان کی جیب میں پیسے ڈالنے پڑتے۔
گاؤں کی سیر کو نکلتے تو جس گھر کے آگے سے گزرتے ، اس گھر کے بڑے احتراماً اٹھ کھڑے ہوتے۔ ایک بار میں اور نانا مرحوم مسجد سے نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے تو دیکھا کہ ہمارے پیچھے بہت سے لوگ آرام آرام سے چل رہے ہیں۔ یوں معلوم ہورہا تھا جیسے ہمارا" پیچھا" کر رہے ہیں ۔میں نےنانا جان سے پوچھا کہ یہ لوگ آگے کیوں نہیں جارہے؟ ہمارا پیچھا کیوں کر رہے ہیں؟
میری بات سنتے ہی نانا رک گئے اور ان سے کہا کہ "آپ گزر جائیں کوئی بات نہیں"۔
میں نانا سے وجہ دریافت کی تو وہ پھر مسکرا دیے، اب کی بار میں نے بھی مناسب جواب لیے بغیر گھر ناجانے کی ضد شروع کردی۔ نانا جان! تانگے والا آپ کا نام سن کر پیسے کیوں نہیں لیتا؟ آپ جہاں سے گزرتے ہیں لوگ کھڑے کیوں ہو جاتے ہیں؟ اور یہ لوگ ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟
نانا نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ”پتر طلحہ! دراصل میں استاد( ٹیچر) ہوں، یہ سب لوگ میرا نہیں بلکہ ”استاد“ کا احترام کر رہے ہیں۔ “
اس یوم اساتذہ پر تقریباً ہر تعلیمی ادارے میں اساتذہ کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا، بدقسمتی سے مجھے بھی یونیورسٹی کے قریب ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اساتذہ کے لیے منعقد کی گئی تقریب کا چیف گیسٹ استاد نہیں بلکہ وی آئی پی تھا۔ بدقسمتی سے دور حاضر کے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اساتذہ کا احترام چھوڑ کر انہیں خریدنا شروع کردیا ہے۔ جس دن ہمیں معلوم ہوگیا کہ اصل وی آئی پی کون ہے انقلاب برپا ہوجائے گا۔
تبصرہ لکھیے