مغربی پاکستان کے طالع آزما سیاست دانوں سے مایوس ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمن جب براستہ لندن بنگلہ دیش پہنچ گیا تو باقی ماندہ پاکستان پر حکمرانی کرنے کا ذوالفقار علی بھٹو کا خواب پورا ہو گیا۔ اب اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا۔
متحدہ پاکستان کی اکثریتی پارٹی کا سربراہ اور وزارتِ عظمیٰ کا حقیقی حقدار اب اس دعوے سے ہی دستبردار ہو چکا تھا۔ پاکستان کی سول بیوروکریسی نے بھی سُکھ کا سانس لیا، کہ انہیں ذہین بنگالیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ ملٹری بیوروکریسی اس لئے خوش تھی کہ کہاں قدآور چوڑے سینوں والے پنجابی اور پٹھان اور کہاں وہ چھوٹے قد اور مختصر وجود والے بنگالی، بھلا ایک ہی صف میں کھڑے اچھے لگتے تھے؟ لیکن پاکستان کی قسمت میں ابھی ہوسِ اقتدار کی کشمکش کی لاتعداد داستانیں تحریر ہونا تھیں۔
بھٹو کی سیاست کا جنم ہی مغربی پاکستان کے ون یونٹ کے دور سے ہوا تھا اور اسے چار صوبائی حکومتوں کی عادت ہی نہیں تھی۔ اس لئے اس کیلئے یہ سب ناقابلِ برداشت تھا کہ ایک ہی پاکستان میں، پنجاب اور سندھ میں تو اس کی پیپلز پارٹی حکمران ہو، مگر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اس کے مخالفین کی حکومت قائم ہو۔ منصوبہ سازوں نے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا جس کے نتیجے میں بلوچستان پر چار سال ملٹری آپریشن کے ذریعے خاک اور خون کی آندھی مسلّط ہو گئی۔ اس منصوبے کا آغاز بھی ایک ’’لندن پلان‘‘ کے افشائے راز سے ہوا۔ پنجابیوں کا لہو گرمانے کیلئے 31 جنوری 1973ء کو نواب اکبر بگٹی سے لاہور کے موچی دروازے کے ایک سیاسی جلسے میں تقریر کروائی گئی۔
اس نے وہاں اعلان کیا کہ ولی خان اور عطاء اللہ مینگل نے لندن میں اسے ایک منصوبے سے آگاہ کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک نیا ملک ’’آزاد بلوچستان‘‘ قائم ہو گا جو ایک یا دو عالمی طاقتوں کی زیر نگرانی محفوظ رہے گا۔ اکبر بگٹی نے یہ بھی بتایا کہ وہی غیر ملکی طاقتیں جو ’’گریٹر بلوچستان‘‘ کے منصوبے کی مدد کر رہی ہیں، ان کا ہیڈ کوارٹر بغداد ہے۔ فوراً بعد فروری 1973ء میں ہی بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا گیا اور عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ احتجاجاً سرحد حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس نفرت انگیز فضا میں 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے پر بھٹو نے ایف ایس ایف اور پارٹی کے پرائیویٹ غنڈوں سے فائرنگ کروائی جس کے نتیجے میں درجنوں لوگ مارے گئے۔
یہ جلسہ بھٹو کے ہاتھوں بلوچستان حکومت کے خاتمے پر احتجاج کیلئے ہو رہا تھا۔ بے شمار سیاسی رہنما افغانستان بھاگ گئے۔ بھٹو نے 10 فروری 1975ء کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر لیڈروں پر غدّداری کے مقدمات قائم کر دیئے جو ’’حیدر آباد ٹربیونل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ جون 1975ء کو سپریم کورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی توثیق کر دی۔ اس لندن پلان کے دیئے گئے زخم بھی ایسے ہیں جن سے آج تک لہو رِس رہا ہے۔ بھٹو حکومت ختم ہوئی، ضیاء الحق آ گیا، غدّاری کے کیس واپس لے لئے گئے، بلوچوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا مگر ان کی قیادت مین سٹریم سیاست سے دُور ہی رہی۔ بھٹو کی پھانسی نے ایک اور صوبے یعنی سندھ کو بھی احتجاجی سیاست میں جھونک دیا۔
ضیاء الحق کی حالات پر گرفت مضبوط تھی کیونکہ افغانستان میں روس سے لڑائی نے ضیاء الحق کو امریکہ کی ضرورت بنا دیا تھا اور ایسے تمام سیاسی رہنما جو ضیاء الحق کے مخالف تھے ان کی اکثریت بیرونی اثر و نفوذ سے ملک کے باہر منتقل کر دی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اور اس کا بھائی مرتضیٰ بھٹو، ایک لندن میں، دوسرا پیرس یا شام میں، بزنجو اور مینگل ساتھیوں سمیت لندن کی سرد ہوائوں میں گھومتے اور خیر بخش مری کابل یا ماسکو میں۔ غرض راوی ضیاء الحق کیلئے چین ہی چین لکھتا رہا کیونکہ یہ سارے لیڈر کسی لندن پلان کی صورت ضیاء دور میں آکسفورڈ سٹریٹ کی ٹھنڈی ہوائوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
فروری 1988ء میں روسی فوجیوں نے جانا شروع کیا تو چھ ماہ کے اندر ہی اگست 1988ء میں ضیاء الحق اپنے ساتھیوں سمیت طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ لیکن افغان لڑائی کی وجہ سے جو امریکی سرپرستی ملی اس میں پاکستانی آئی ایس آئی اسقدر مضبوط، طاقتور اور منصوبہ ساز ہو چکی تھی کہ اب اس نے پاکستان میں ایک لولی لنگڑی اور ڈری سہمی ہوئی جمہوریت کا راستہ شروع کروایا۔ بے نظیر کی حکومت ایسی تھی جس میں پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوسرے کو مصلحتاً برداشت کرنا شروع کیا تھا۔ لیکن اس حکومت کے بعد پاکستانی سیاست کا مرکز و محور، قبلہ و کعبہ اور پاور ہائوس مکمل طور پر لندن منتقل ہو گیا۔ اہم اور بڑے لیڈروں نے یا تو وہاں اپنے لئے ٹھکانے خرید لئے یا پھر ان کی پارٹی کے وفاداروں نے ان کیلئے ٹھکانے بنا دیئے۔
لندن کی گلیاں اب پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی ’’کیٹ واک‘‘ کا منظر پیش کرنے لگیں۔ 1988ء میں ایک لسانی گروہ کراچی کی سیاست میں ایسا اُبھرا کہ الیکشن میں تمام سیٹیں جیت گیا۔ اس جیت نے پاکستانی سیاست کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ ہر بڑی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کی دستِ نگر ہو گئی۔ لیکن لسانی و علاقائی کشمکش اسقدر بڑھی کہ اس گروہ پر 1992ء میں کریک ڈائون کرنا پڑا اور اس کا رہنما الطاف لندن چلا گیا۔ آج اسے وہاں آباد ہوئے ٹھیک تیس سال ہو چکے ہیں۔ یہ تیس سال پاکستان کے سب سے بڑے اور صنعتی شہر کو لندن سے بیٹھ کر چلانے یا "Govern" کرنے کی ایک ایسی مثال ہے کہ جس کا نعم البدل صرف اور صرف سسلی کے ان مافیاز میں نظر آتا ہے جن کے سربراہ نیو یارک اور شکاگو میں بیٹھ کر انہیں کنٹرول کیا کرتے تھے۔
سیاست میں ایسا رنگ ڈھنگ صرف جلاوطن حکومتوں کا ہوتا ہے، جیسے آئرلینڈ کی جلاوطن حکومت امریکہ میں بیٹھ کر احکامات دیتی رہتی تھی۔ پاکستان میں مسلسل اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے کے باوجود احکامات لندن سے لینے کا رواج صرف اس بدقسمت ملک کے ہی نصیب میں آیا ہے۔ الطاف حسین کی جلاوطنی تو یہاں تک مسلسل اور مستقل ہو گئی کہ اس نے برطانوی شہریت بھی لے لی۔ لندن کی ہوائیں ہمارے سیاستدانوں کو ایسی بھائیں کہ پیپلز پارٹی میں آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے سرے پیلس سے لے کر رحمن ملک کے پُر تعیش گھر تک اور نواز شریف کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے لے کر ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے لیڈروں تک، سب کے ٹھکانے وہیں بنتے چلے گئے۔
یورپ میں دو شہر ایسے ہیں جو غریب اور پسماندہ ممالک کے مجرم سیاست دانوں اور ان کی دولت کیلئے محفوظ پناہ گاہ ہیں۔ ایک سوئٹزر لینڈ کا جنیوا جس کے بینکوں میں فلپائن کے مارکوس سے لے کر پاکستان کے آصف زرداری تک سب نے لوٹی ہوئی دولت جمع کروائی۔ جبکہ دوسرا شہر لندن ہے جہاں پر ایسے ہی پسماندہ ملکوں کے ’’بھگوڑے‘‘ حکمران پناہ لیتے ہیں، جیسے تھائی لینڈ کے دو وزرائے اعظم، تھاکسن اور شہناواترا ہوں، یا پاکستان کے دو وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر۔ ایک دوسرے کے مخالف، ایک دوسرے کی جان کے دشمن، لیکن لندن کے کیفوں، کافی شاپس اور شاپنگ مالز میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر۔ دنیا بھر کے ممالک سے آئے ہوئے سیاست دان اپنے ملکوں سے اتنی دولت ضرور لاتے ہیں کہ لندن میں کسی بڑے سے بڑے رئیس سے بھی کہیں بہتر زندگی گزار سکیں اور ایک عام برطانوی شہری انہیں رشک اور حسد کی نظروں سے دیکھے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں 2019ء میں ایک بحث کئی دن تک چلتی رہی کہ پسماندہ ممالک سے دولت لوٹ کر یہاں لانے والے سیاست دانوں نے لندن کی شاندار رہائش گاہوں کی قیمت اتنی بڑھا دی ہے کہ امیر سے امیر برطانوی شہری بھی اب وہاں گھر خریدنے کا سوچ نہیں سکتا۔ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر 14 مئی 2006ء کو بے نظیر اور نواز شریف نے دستخط کئے تھے اور پھر اس کے بعد لندن بیٹھی ان دو شخصیات نے پاکستانی سیاست کا مرکز ہی وہاں منتقل کر دیا۔ آج سولہ سال گزرنے کے بعد ہمارا عالم یہ ہے کہ پہلے صرف سیاست تھی اور اب ہماری اسٹیبلشمنٹ کا مرکز بھی شاید لندن ہی شفٹ ہو چکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں جو فیصلے 75 سال تک ہمیشہ پاکستان کی سرزمین پر ہوا کرتے تھے، سنا ہے اب وہ بھی لندن میں ہوا کریں گے۔ ہم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ (ختم شد)
تبصرہ لکھیے