ہوم << کیا وکیلوں کا یونیفارم تبدیل ہو سکتا ہے- آصف محمود

کیا وکیلوں کا یونیفارم تبدیل ہو سکتا ہے- آصف محمود

کیا آپ نے وکلاء کے یونیفارم پر کبھی غور کیا ہے؟بلکہ زیادہ بہتر ہے کہ حبس آلود دو پہر میں کسی وکیل کو دیکھ لیجیے تاکہ حق الیقین اور عین الیقین کے مراحل ایک ساتھ طے ہو جائیں۔شدید گرمی اور حبس میں اس سیاہ رنگ کے پینٹ کوٹ اور ٹائی کا کیا جواز ہے؟

یہ تو حقوق انسانی کی باقاعدہ اور سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن نو آبادیاتی دور کی اس میراث کو تبرک سمجھ کر یوں اپنا لیا گیا ہے کہ اب سا نس آئے نہ آئے اور گرمی اور حبس سے چاہے جسم پر نقش و نگار بن جائیں لیکن لباس ہم نے وہی زیب تن کرنا ہے جو ہمیں نو آبادیاتی ورثے میں ملا ہے۔ اس لباس کی حکمت کیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہمیں اس گرم خطے میں ، جہاں درجہ حرارت انسان کی جان کو آ جاتا ہے ، اسی لباس پر اصرار ہے؟ اس لباس کی تاریخ کے حوالے سے مختلف روایات ہیں۔ کوئی اسے کنگ ایڈورڈ سوم سے منسوب کرتا ہے کہ اس نے اپنے حضور پیش ہونے والوں کے لیے 1327ء میں یہ لباس منتخب کیا تھا۔ معروف مورخ جے ایچ بیکر کے مطابق یہ لباس سترہویں صدی میں کنگ چارلس دوم نے رائج کیا تھا۔

عمومی اتفاق اس بات پر پایا جاتا ہے کہ اس لباس کو کوئین میری دوم کے سوگ سے نسبت ہے۔ کوئین میری دوم کا 28 دسمبر 1694 میں انتقال ہوا۔ یہ ایک مقبول ملکہ تھیں جو جوانی میں ہی انتقال کر گئیں۔ ان کا طویل سوگ منایا گیا۔ سارے جاڑے ان کی میت محفوظ پڑی رہی۔ پانچ مارچ1695کو ان کی تدفین ہوئی۔یہ پہلی ملکہ تھیں جن کی تدفین میں تمام اراکین پارلیمان شریک ہوئے۔ جج صاحبان بھی بطور خاص اس سوگ میں شامل ہوئے۔ کنگ ولیم نے تمام ججز اور وکلاء کو حکم دیاکہ وہ سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ لباس پہنیں۔ دو ماہ بعد ملکہ کی تدفین تو ہو گئی لیکن چونکہ کنگ ولیم نے یہ حکم واپس نہیں لیا اس لیے سیاہ لباس اسی طرح پہنا جاتا رہا ۔جو بعد میں قانون کی د نیا سے ایک روایت کی صورت جڑ گیا۔

اس لباس کی نسبت سے جڑی روایات کو یکسر نظر انداز بھی کر دیں تو پاکستان کے ماحول کے سوال کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس حدت میں جب مون سون کا حبس بھی شامل بھی ہو جاتا ہے تو ایسے میں یہ لباس شعور انسانی ہی کی نہیں انسان کے حقوق کی بھی پامالی کے زمرے میں آتا ہے۔نو آبادیاتی بند وبست اس بات سے بے نیاز تھا کہ اس کے وکلاء کا پیرہن یہاں کے مقامی موسم کے لحاظ سے موزوں ہے یا نہیں ۔ اس کے خیال میں چونکہ اس کی تہذیب کا ہر رنگ مبارک تھا اس لیے White Man's Burden کے تحت غیر مہذب اقوام کو ’ مہذب لباس‘ پہنانا بھی ضروری تھا ۔دل چسپ بات ہے کہ جنہیں یہ نا مناسب لباس پہنایا گیا ہے وہ اسی پر نازاں ہیں کہ کامن لاء کا پیرہن اوڑھ لیا ہے اور انہیں اس لطیف نکتے سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے وجود پر کیا بیت رہی ہے۔

اس رویے کا سماجی اور نفسیاتی مطالعہ ہونا چاہیے ۔ اکتوبر کے آخری دن ہیں لیکن گرمی ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ یہ لباس پیشہ ورانہ ضرورت ہے، احساس تفاخر ہے یا ہماری فکری غلامی کی ایک یاد گار ہے جسے ہم گلے لگائے پھرتے ہیں؟ اگر ہم موسم کی مناسبت سے کوئی معقول لباس پہن لیں تو کیا قانون کی کتابوں میں لکھے الفاظ ہم سے روٹھ جائیں گے؟ 22 مارچ 1961ء کوپولیس کا ڈھانچہ وضع کیا اور پولیس ایکٹ آ یا۔آج 161 بعد بھی ہماری پولیس (چند جزوی تبدیلیوں کے باجود) بنیادی طور پر اسی ڈھانچے پر کھڑی ہے۔ جس قانون کو ہم تعزیرات پاکستان کہتے ہیں یہ آج 161 سال بعد بھی ویسا ہی ہے۔ بس ہم نے اس کا نام بدل لیا اور چند پیوند لگا کرہم مطمئن ہو گئے۔

کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ ہمارا سارا فوجداری ڈھانچہ اس قانون پر کھڑا ہے جو بہادر شاہ ظفر کی جلاوطنی کے مانے میں رعایا کو کچلنے کے بعد اس اہتمام سے لایا گیا کہ اس رعایا میں آئندہ کوئی سر نہ اٹھانے پائے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری 121سال پرانا ہے۔ سیلز آف گڈز ایکٹ 89سال پرانا ہے۔سپیسیفک ریلیف ایکٹ کو بنے 141سال ہو گئے ہیں۔سٹیمپ ایکٹ 120سال کا ہو چکا ہے۔ ٹرانسفر آف پراپرٹی کا جو قانون ہم نے رائج کر رکھا ہے وہ 137 سال پرانا ہے۔ ایکسپلوزوز ایکٹ کی عمر 135 سال ہے۔ پاسپورٹ ایکٹ 99سال پرانا ہے۔ پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس کا قانون 158 سال پرانا ہے۔ایکٹریسٹی ایکٹ کی عمر 109سال ہے۔فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ کو بنے 164 سال ہو گئے ہیں۔ جنرل کلاز ایکٹ 122سال کا ہو چکا ہے۔ گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 129سال پرانا ہے۔ لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ کی عمر 125سال ہے۔نگوشییبل انسٹرومنٹ ایکٹ کی عمر 138سال ہے۔

اوتھ ایکٹ 146سال کا ہو چکا ہے۔ پارٹیشن ایکٹ کو 126 سال ہو چکے۔ پارٹنرشپ ایکٹ87 سال پرانا ہے۔پنجاب لاز ایکٹ کی عمر 147سال ہے۔ پنجاب ٹیننسی ایکٹ 132سال پرانا ہے۔ رجسٹریشن ایکٹ 111سال پرانا ہے۔ نہ ہمارے قانون بدلے ہیں نہ ہمارے لباس بدلے ہیں۔ آزاد ہوئے ہمیں پون صدی ہونے کو ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہم اپنے لباس پر غور کریں۔ سوچیں کہ سیاہ رنگ ہی کیوں؟ سیاہ رنگ تو گرمی جذب کرتا ہے۔اور پھر انگریزی لباس ہی کیوں؟ خدام ادب کو یہاں جناح کیپ پہنا دی گئی ہے اور قانون دان جولائی میں کالا سوٹ پہنتے ہیں۔ انگریز نے ججوں کو وگ پہنائی تو اسی کی دہائی تک ہمارے ہاں بھی وگ پہنی جاتی رہی۔ آزادی کے بعد تین عشرے کسی نے غور کرنے کی زحمت نہ کی کہ اس وگ مبارکہ میں کون کون سی فضیلت ہے۔ہمارے ہاں شلوار قمیض کی اجازت دی گئی تو ساتھ شیروانی کی شرط رکھ دی گئی۔

پینٹ کوٹ میں پھر کہیں سے ہوا کا جھونکا گر جاتا ہے شیروانی محترمہ تو پورا بکتر بند ہیں۔ پھر یہ سرما میں تو ایک موزوں لباس ہو سکتا ہے گرم موسم میں یہ بھی مناسب نہیں۔ انگریز نے جو لباس متعارف کرایا تھا وہ ان کے سرد موسم کی مناسبت سے تھا۔ہم جون جولائی میں بھی اسے اتارنے کو تیار نہیں۔ہے کوئی ہم سا؟ یہ کیسا احساس کمتری ہے کہ ہم آج سوا تین سو سال بعد بھی ملکہ کوئین میری کے سوگ میں کالا لباس پہن کر پھرتے ہیں۔ کنگ ولیم صاحب نے اگر اپنا حکم واپس نہیں لیا اور بھول گئے تھے تو کیا ہم خود اس ’ حکم نامے‘ میں حسب ضرورت ترمیم نہیں کر سکتے؟

ہمیں اپنی مقامی تہذیب کے ہر رنگ پر ندامت کیوں ہے؟ ہم اس احساس کمتری کا شکار کیں ہیں؟ کیا ہم اپنی مقامی ضروریات کے مطابق اپنے لیے لباس کا انتخاب نہیں کر سکتے؟یہ کیسی مرعوبیت ہے اور یہ کیس احساس کمتری ہے؟ ٭٭٭٭