میں ٹی وی اسکرین کو نگاہیں جما کر دیکھتی ہوں۔ پانی ’’ہر طرف پانی‘‘ زمین کی گہرائیوں سے ابلتا ہوا اور آسمان سے چھاجوں برستا ہوا۔ تندور سے ابلتے ہوئے طوفان نوحؑ کا کیا یہی منظر ہوگا؟ یا سیلاب کی زد میں آنے والے سب ڈوب گئے ہوں گے؟
ہماری فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، ہماری دو دھاری گائیں اور بھینسیں، بکریاں اور مرغیاں سب ہی کو سیلاب نے نگل لیا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون نے لکھا ہے کہ 83 لاکھ ایکڑ کھڑی فصلوں میں سے 34 لاکھ ایکڑ پر تیار فصلیں صرف سندھ میں ضایع ہوئی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے کسان کتنے غریب ہوگئے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم قحط کی دہلیز پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ قحط وہ معاملہ تھا جس پر نجمہ صادق سے بہت گفتگو ہوتی تھی۔ وہ چلی گئی ہیں لیکن ان کی لکھی ہوئی کچھ رپورٹیں اور ان کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار آج بھی دل دہلا دیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوب کے ملکوں کو غذا کی اجناس جنوبی ممالک درآمد نہیں کرنی چاہئیں۔ ان کی تحقیق بتاتی تھی کہ ہندوستان میں جب نوآبادیاتی نظام شروع ہوا، اس وقت تک یہاں غذائی اجناس کی قلت نہیں ہوتی تھی۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ یہاں قحط نہیں پڑتا تھا، سوائے شہنشاہ جہانگیر کے دور میں پڑنے والے ایک قحط کے سوا۔ انھوں نے ایک مرتبہ ہنری کسنجر کی تقریر کا حوالہ بھی دیا تھا جس میں کسنجر نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ کسی ملک کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی غذائی پالیسی کو اپنے قابو میں رکھیں۔‘‘
نجمہ صادق کا کہنا تھا کہ کھانے یا غذائی اجناس کا زیاں لوگوں کو بھوکا رکھتا ہے، قحط اور قالین کا بھی ایک گہرا رشتہ ہے، قحط اپنے ساتھ قرض کا بھنور ساتھ لاتا ہے جس میں چھوٹی بچیوں اور بچوں کی انگلیاں ڈوبتی ابھرتی رہتی ہیں۔ سندھی کی معروف شاعرہ عطیہ داؤد اس موضوع پر تحقیق کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھوک، قحط اور قرض کی دلدل میں دھنستے ہوئے لوگ کہاں جائیں، کیا کریں؟ سیلاب ان کے لیے ایک نیا عذاب لے کر آیا ہے۔ عطیہ نے قالین بافی کے بارے میں اپنی تحقیق کے دوران مٹھی، چھاچھرو، سلام کوٹ، پھان گیاریاں کی مختلف کھڈیاں دیکھیں جہاں کے بچے اور بڑے قالین میں لگائی جانے والی گرہوں کے ساتھ ساتھ قرض کے تانے بانے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں اس سفر کے دوران ایک گاؤں ’’آمجی‘‘ گئی۔ یہاں میگھواڑ رہتے ہیں۔ ایک کھڈی میں 9برس کی عمر کا ’’کیسرو‘‘ اور سات برس کا ’’پاون‘‘ قالین بنا رہے ہیں۔ میں ابھی ان سے بات ہی کر رہی ہوں تو میری بیٹیاں سونہہ اور سہائی باہر گاڑی سے اتر کر میرے پاس آتی ہیں۔ ’’ می پانی چاہیے!‘‘ منرل واٹر کی بوتل میرے ہینڈ بیگ میں رکھی ہوئی تھیں۔ کیسروں اور پاون کی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہے۔ ’’می یہ تو ہمارے جتنے ہیں‘‘ میرا دل ڈوبنے لگتا ہے۔
سونہہ اور سہائی کا ہاتھ پکڑ کر میں جلد سے جلد تیز قدموں سے چلنا چاہتی تھی، بھاگنا چاہتی تھی۔ مگر تیز چلنا یہاں میرے بس کی بات کہاں تھی۔ پاؤں ریت میں دھنستے جا رہے تھے۔ ایک عورت نے کہا ’’ادھر آؤ۔ ادھر اس کھڈی میں ’’نہال‘‘ کام کر رہا ہے۔ وہ پانچ برس کا ہے، اس سے بھی مل لو۔‘‘ میں اپنے ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر کیسرو اور پاون سے نظریں ملاتے ہوئے شرمندہ ہو رہی ہوں تو اب نہال سے ملنے کی جرأت کہاں سے لاؤں؟ میں باہر ہی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے حال احوال لیتی ہوں۔
جو میری چو طرف کھڑی ہوگئی تھیں۔ میرے لیے انھوں نے نیچے رلی بچھا دی۔ میں نے ان سے سوال کیا ’’آپ لوگ اتنا قرض کیوں لیتے ہو! اور ایک ہی وقت میں آپ کو بیس اور دس ہزار روپے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟‘‘ عورتوں نے جواب دیا ’’ہم میگھواڑ ہیں، ہماری اپنی برادری ہے، ریتیں اور رسمیں ہیں، بیٹے کی شادی پر قرض لیتے ہیں۔
برادری کے مختلف لوگ گاؤں میں سے ہمارے پاس شادی میں رہنے کے لیے آتے ہیں۔ پھر وہ کئی دنوں تک مہمان بنے رہتے ہیں۔‘‘ دوسری عورت نے کہا کہ ’’مہمان ایک بار جانے کے لیے جھوٹ موٹ کہتے ہیں، لیکن یہ رسم ہے کہ میزبان ان کو زبردستی روکے گا اور کہے گا آپ ایسا نہ کریں، کچھ دن اور رہیں، کچھ دن کے بعد پھر یہ منظر دہرایا جائے گا۔‘‘ عورتیں ہنسنے لگتی ہیں۔ میں نے تجسس سے پوچھا کہ ’’آخر مہمان واپس کیسے جائیں گے؟‘‘ ایک عورت نے بتایا ’’جب میزبان کے پاس سب کچھ ختم ہو چکا ہوگا۔
اس وقت پھر جب مہمان جانے کے لیے کہے گا تو میزبان چپ رہے گا اور پھر مہمان سمجھ جائے گا کہ اس بار تو مجھے سچ مچ میں جانا ہی پڑے گا۔‘‘ ’’آپ لوگ جب یہ سمجھتے بھی ہیں تو پھر کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ ایک عورت نے اداسی سے کہا ’’اگر ہم ایسا نہ کریں تو برادری میں بہت برائی کی جائے گی، جگ ہنسائی ہوگی، لوگ طعنے دے کر ہمارا جینا حرام کردیں گے۔ کہیں گے کہ ایسے ویسے گئے گزرے لوگ ہیں، انھوں نے ہمیں رہنے کے لیے نہیں کہا۔ اچھا کھانا نہیں کھلایا۔ اس لیے ہم کو یہ سب کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
یہ ناسمجھ لوگ جو اپنے معصوم بچوں کو اپنے شوق اور رسومات کو نبھانے کی خاطر روایتوں کی چکی میں بیل کی طرح جوت دیتے ہیں۔ بہت کم خاندان ایسے تھے جنھوں نے اس کے علاوہ کسی اور وجہ کے لیے قرض لیا ہو۔ ایک خاندان ایسا ملا تھا جنھوں نے 3000 کا راشن لیا تھا اور اپنے چونہرے کو مضبوط بنانے کے لیے قرض لیا تھا۔ دوسرے خاندان نے بکری خریدنے کے لیے قرض لیا تھا۔ باقی تمام خاندانوں نے بیٹے کی شادی کے لیے قرض لیا ہوا تھا۔ ان کو ویسے 70روپے اسکوائر فٹ مزدوری ملتی ہے لیکن قرض لینے کی وجہ سے اب ان کو 40 روپے ملتے ہیں۔
سیلاب کا پانی لوگوں کو ڈبو رہا ہے لیکن ڈوبنے والوں کو ایک گھونٹ پینے کا صاف پانی نہیں ملتا، کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور انھیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایک لقمہ نہیں ملتا۔ سیلاب کے بھنور میں کیا کچھ ڈوب رہا ہے، ذرا دیکھیے تو سہی!
تبصرہ لکھیے