اسلام آباد: ہائی کورٹ نے بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔
اداروں کے خلاف بغاوت پر اُکسانے کے کیس میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کے روبرو وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بدنیتی اور سیاسی بنیادوں پر یہ کیس بنایا گیا، اس کیس میں تفتیش مکمل ہو چکی ہے پورا کیس ایک تقریر کے اردگرد گھومتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر میں لکھی ہوئی باتیں شہباز گل نے کہیں تھیں ؟
کیا آپ آرمڈ فورسز کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیان کو جسٹیفائی کر سکتے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین کے مطابق فوج کو سیاست میں ملوث کیا جا سکتا ہے؟ کیا سیاسی جماعت کے ایک ترجمان کے ان الفاظ کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ صرف تقریر نہیں ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کی گفتگو میں آرمڈ فورسز سے متعلق کہیں پر بھی نامناسب الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔شہباز گل کی گفتگو کے مخصوص حصے بدنیتی سے نکالے گئے ہیں۔ شہباز گل نے اپنی گفتگو میں 9 جگہوں پر ن لیگ کی لیڈرشپ کا نام لیا ۔ کیوں گفتگو کے اس حصے کو نکال دیا گیا ؟ اصل میں یہ بدنیتی پر مبنی ہے ۔
اس موقع پر وکیل نے شہباز گل کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کرسناتے ہوئے کہا کہ شہباز گل نے اتنا انتشار تقریر میں نہیں پھیلایا جتنا مدعی مقدمہ نے بنایا جب کہ مدعی اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہے ۔ آرمڈ فورسز کی طرف سے مقدمہ درج کرانے کا اختیار کسی اور کے پاس نہیں۔ 11 جرم ایف آئی آر میں شامل کر دیے گئے، مقصد یہ تھا کوئی تو شہباز گل پر لگ جائے گا ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمڈ فورسز اتنی کمزور نہیں کہ کسی کے غیر ذمے دارانہ بیان سے ان پر اثر ہو ، لیکن شہباز گل کے غیر ذمے دارانہ بیان کو کسی طور بھی جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت لی گئی تھی؟ جس پر سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اجازت نہیں لی گئی تھی جب کہ اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ اجازت لی گئی تھی۔
وکیل شہباز گل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے بھی کہا تھا غلط آرڈرز کو نہ مانا جائے ۔ شہباز گل نے بھی وہی کہا تھا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہیں ، یہ لاپروائی پر مبنی بیان تھا ۔شہباز گل پارٹی ترجمان ہیں، ان کو علم نہیں تھا کہ آرمڈ فورسز نے سیاست میں ملوث نہ ہونے کا حلف لے رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے سوالات کیے کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا کہ شہباز گل نے کسی سولجر سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا؟ بغاوت کے کیس کو تو یہ عدالت مانتی ہی نہیں۔ اس کے علاوہ دلائل دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہباز گل نے کسی ایک کو کہا ہو کہ آپ بغاوت کریں ؟ ، جس پر پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ انہوں نے ایک کو نہیں بلکہ سب کو کہا ۔
پراسیکیوٹر نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تقریر سے اشتعال دلانا بغاوت پر اُکسانے کے مترادف ہے۔ اصل میں بغاوت کا ہو جانا ضروری نہیں۔ شہباز گل نے بات ایک نیوز چینل پر کہی تھی۔ وہ نیوز چینل ملک کا ہر دوسرا شہری دیکھ رہا تھا ۔ آرمڈ فورسز میں بھی نیوز چینل دیکھا جاتا ہے۔ یہ بغاوت پر اکسانے کا الزام ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شہباز گل نے کسی ایک کو کہا ہو کہ بغاوت کرو تو بتائیں؟۔راجا رضوان نےبتایا کہ انہوں نے ایک کو نہیں، سب کو بغاوت پر اکسانے کا کہا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون میں جو لکھا ہے اس کے مطابق بتائیں کیسے یہ الزام بنتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک آپ نہیں بتا سکے کہ شہباز گل نے کسی سولجر سے رابطہ کیا ہو ۔ جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔کل کو وہی شخص بے قصور نکلا تو اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا ۔ آپ کارروائی ضرور کریں لیکن ٹھوس مواد تو سامنے لائیں۔ آپ بتائیں کیوں کس بنیاد پر یہ عدالت انہیں ضمانت نہ دے۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بغاوت کے مقدمے میں شہباز گل کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
تبصرہ لکھیے