برابر گھورتے رہنا خلائوں میں ہمارا کام اڑنا ہے ہوائوں میں کہیں سے ٹوٹ آئے گا ستارا بھی کہ ہم نے آنکھ رکھی ہے دعائوں میں مگر ایک شعر اور جو ضروری ہے کہ ’’بہت ہی زور سے ٹوٹے ہیں سعدؔاب کے کہ ہم محفوظ رہتے تھے انائوں میں، مگر ایسا بھی نہیں کہ ہار مان لی جائے مگر مریم نواز فرماتی ہیں کہ فرد جرم نہیں عمران کو سزا ملنی چاہیے کیا ہی اچھا ہو کہ محترمہ کچھ کام عدلیہ پر چھوڑ دیں۔
ہاں آپ یہ کہہ لیں کہ یہ آپ کی خواہش ہے اور پھر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے۔اب آپ کے دور کی عدلیہ تو نہیں لائی جا سکتی!! عدلیہ اپنی جگہ سوچ بچار کر رہی ہے کہ ان کے سامنے مثالیں ہیں لیکن یہ کام عدلیہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ مجھے تو آج کچھ اور طرح کا کالم لکھنا ہے سیاست تو ہوتی رہتی ہے اور ہو رہی ہے ابھی تو ضمنی الیکشن پر منہ ماری ہو رہی ہے۔حکومتی رہنما فرما رہے ہیں کہ الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ درست ہے کہ ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے یعنی اب ان کو بھی ڈبونا ضروری تو نہیں۔کسی نے درست کہا کہ عوام کو تو مہنگائی نے مار رکھا ہے۔ان کے نزدیک عمران حکومت سے لوگ تنگ تھے اور شہباز حکومت سے کچھ مزید تنگ ہو گئے.
دلیل اس کی یہ کہ تب اس گرانی کے باعث پی ٹی آئی ضمنی الیکشن ہار رہی تھی اور اب ن لیگ بات میں منطق ہے۔دوسری طرف اپوزیشن ملتوی فیصلے کو غلط قرار دے رہی ہے کہ یہی وقت ہے الیکشن جیتنے کا کہ حکومت مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور عمران مقبولیت کی بلندیوں پر ہے۔تاہم سراج الحق صاحب بھی درست فرماتے ہیں کہ یہ وقت جنگ کا نہیں بلکہ مل کر متاثرین کے لئے کام کرنے کا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ غلط کوئی بھی نہیں کہتا۔ باقی باتیں تو ہماری سمجھ میں آتی ہیں مگر اسد عمر کے مشورے بالکل سمجھ میں نہیں آتے کہ انہیں سقراط اور بقراط بنا کر پیش کیا گیا تھا مگر وہ چند دنوں میں ہاتھ کھڑے کر گئے پھر ایک لمبی چپ کے بعد وہ کورونا کی لہریں گنیںپر مامور کر دیے گئے۔
کچھ قانونی ماہرین عمران کو غلط تسلیاں دے رہے ہیں دل سے کہتا ہوں کہ اگر عمران خاں معافی مانگ لیتے تو وہ قانون کو نہیں خود کو بلند کر دیتے۔ایک خوشی تو مجھے ہوئی کہ ہمارے شہر کی بھی سنی گئی کہ ہماری جم پل بھی چشتیاں میں ہے طمانیت ہوئی کہ خان نے وہاں پاور شو کیا اور بقول وہاں کے مبصر علی شاہ یہ چشتیاں کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا اس کے بعد بی بی مریم بھی وہاں پہنچی اور انہوں نے کہا کہ چشتیاں ن لیگ کا ہے اب دیکھیے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا۔
چشتیاں بزرگوں کا شہر ہے بابا تاج الدین چشتی اور خواجہ نور محمد مہاروی‘ میں نے پی ٹی وی کے لئے ان مزارات اور شہر کی ڈاکیومنٹری بھی بنائی تھی یہ اپنے ضلع سے بھی زیادہ اہم شہر ہے یہاں علی شاہ جیسے نوجوان پی ٹی آئی کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ اب ذرا ٹی ٹونٹی میں نمبر ون کی بات ہو جائے رضوان نے مختصر بات کر کے سب کچھ سمیٹ دیا کہ اسے اللہ نے ٹی ٹونٹی میں نمبر ون بنایا یہ تو ہوتا ہے یقین اور ایمان۔رضوان ای ایسا پیارا اور من موہنا کردار ہے کہ اس نے دشمنوں کے بھی دل جیت لئے، کوئی نفرت کا شائبہ تک نہیں، ہنسی مذاق اور اپنی آبرو کی حفاظت کہ الٹا وہ لڑکوں سے شرماتا ہوا ایک طرف ہو جاتا ہے اصل میں اس کا کھیل کی طرف انہماک ہے وہ شدید بیماری میں بھی پاکستان کے لئے کھیلنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
اس نے کہا کہ لوگ کہتے تھے رضوان چھکا نہیں مار سکتا پھر لوگوں نے دیکھا کہ اس نے کیسے دشمن کے چھکے چھڑائے بس ایسے ہی اپنے دوست اظہار شاہیں کا شعر یاد آ گیا: چاند کچھ دیر تو ٹھہر گھر میں آسماں سے تجھے اتارا ہے اصل میں آپ کے رویے آپ کا مقام طے کرتے ہیں۔ اپنا پسندیدہ بائولر محمد عامر نظر آیا کہ وہ اپنی جگہ من موجی ہے۔محمد عامر اس وقت کریبین لیگ کھیل رہے ہیں ہم تو سن رہے تھے کہ رمیض راجہ اسے واپس ٹیم میں لانے کے جتن کر رہے ہیں ہم یہ سن کر خوش تھے مگر لگتا ہے پاکستان کرکٹ ٹیم میں نسیم شاہ نے اپنی جگہ پکی کر لی ہے اور پھر شاہین آفریدی تو ہے ہی گویا کہ اب دو شاہین ہمیں مل چلے۔نسیم شاہ تو اچھا خاصہ بلے باز بھی ہے۔
ایسے ہی خیال آیا کہ دنیا سب سے سٹائلش بلے باز ماجد خاں بھی تو میڈیم پیسر آئے تھے۔ اب لوگوں کی نظر فائنل ٹی ٹونٹی پر ہے۔ آخر میں ایک نہایت دلچسپ پوسٹ پر ایک بات کرنا چاہوں گا کسی نے لکھا ہے کہ ’’بخیل کے گھر کا سادہ پانی بھی بوجھ ہوتا ہے۔حتی الامکان پینے سے گریز کریں۔ ویسے جو کم از کم پانی ہی پلا دے تو وہ بخیل نہیں کہ ایسے بھی بدبخت ہیں کہ وہ پانی بھی نہیں پوچھتے آپ کے سامنے بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے ہیں۔مگر آپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ہمارے ایک دوست بڑے بزلہ سنج تھے ایک روز وہ میرے دفتر میں ہمیشہ کی طرح آئے اور کہنے لگے آپ نے مجھ سے کیا لینا دینا کہ آپ چائے کا اہتمام کرتے ہیں میں نے کہا واحد صاحب یہ ہماری روایات ہیں اور مہمان تو رحمت ہوتا ہے۔
کہنے لگے کہ ایک شخص کے پاس میں کبھی چلا جائوں تو وہ چائے تو منگوا لیتا ہے اور میں پی بی لیتا ہوں مگر اس کے بعد اس شخص کے چہرے پر جو اذیت ہوتی ہے وہ مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔شخص کا نام میں نے دانستہ نہیں لکھا۔مقصد تو کردار ہے میں نے اپنی زندگی میں عارف عبدالمتین اور شہزاد احمد جیسوں کو دیکھا جو حد سے بڑھ کر آنے والوں کی خدمت کرتے تھے ایک مرتبہ میری موجودگی میں شہزاد احمد کو حکومت کی طرف سے چیک آیا کہ بے روزگار ہیں۔ شہزاد احمد نے غصے میں وہ چیک واپس بھیج دیا کیا خوددار لوگ تھے عارف عبدالمتین کا ایک شعر:
تلوار کیا گری مرے دشمن کے ہاتھ سے
میں مسکرا کے خیمہ یاراں میں آ گیا
تبصرہ لکھیے