عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہم سے اس وقت ملے جب (عصر کی) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔
پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھادھو رہے تھے۔ (یہ حال دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے (یوں ہی بلند آواز سے) فرمایا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی باتیں پوری کرچکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ! ) میں موجود ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے (یعنی بیمہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔
جس میں محمد رسول اللہ کندہ تھا۔ گویا میں (آج بھی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا (کہ) اس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا؟ انہوں نے جواب دیا، انس رضی اللہ تعالی عنہ نے۔ ابو واقد اللیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے (ان میں سے) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔
پھر وہ دونوں رسول اللہ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب) مجلس میں (ایک جگہ کچھ) گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے (تو صحابہ ؓ سے) فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا (کہ اسے بھی بخش دیا) اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے (بھی) اس سے منہ موڑ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے جو ایک کلمہ سنا ہے گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے کہ آیت کونوا ربانیین سے مراد حکماء ، فقہاء ، علماء ہیں۔ اور ربانیین اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیئے تھے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں۔ حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھے (سینے سے) لگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ اسے علم کتاب (قرآن) عطا فرمائیو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم (دین) کم ہوجائے گا۔ جہل ظاہر ہوجائے گا۔ زنا بکثرت ہوگا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہوجائیں گے۔ حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے، تحمل مزاجی اور ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنے والا بنائے۔ آج جمعہ ہے زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں اور ملک و قوم کی سلامتی کے لیے دعا کریں اللہ ہمیں اپنی رحمتوں میں رکھے، عالم اسلام کو متحد رہنے کی توفیق عطاء فرمائے اور پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی عیبی مدد فرمائے اور ہمیں مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرنے کی طاقت ہی عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
تبصرہ لکھیے