ہوم << بند گلی میں کون- عبداللہ طارق سہیل

بند گلی میں کون- عبداللہ طارق سہیل

بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے اکثر علاقوں میں زمین کی شکل نظر آنے لگی‘ لیکن سندھ کا بہت بڑا حصہ بدستور ڈوبا ہوا ہے ۔ انڈس ہائی وے کی جگہ بڑے پاٹ والا دریا بہہ رہا ہے۔ امارات کے سفیر نے صوبے کا فضائی معائنہ کیا اور بتایا کہ پورا صوبہ سمندر بنا ہوا ہے‘ لیکن پانی بڑھنا اب بند ہو گیا ہے۔ ایک آدھ دن میں اترنا شروع ہو جائے گا اور پھر نمودار ہوگا وہ مہیب پہاڑ جسے ’’کوہ مصائب‘‘کا نام دیا جائے گا۔

اب تک جو ریلیف ورک ہے وہ گھرے ہوئے لوگوں کو کھانا‘ پانی اور شیلٹر دینے تک محدود ہے اور وہ بھی ہر جگہ نہیں پہنچا۔ کئی جگہ لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ ریاست نے کبھی قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری ہی نہیں کی۔ ایک مضمون دیکھا کہ ایک ریاست سیلاب میں گھر گئی۔ یہ معمول کی قدرتی آفات سے بھی نہیں نمٹ سکتی۔ حالیہ سیلاب تو معمول سے کہیں بڑھ کر ہولناک ہے۔ نجی ادارے نہ ہوتے تو پتہ نہیں کتنے دسیوں ہزار لوگ جان سے جا چکے ہوتے۔ سچ کہئے اس پوری قیامت میں ریاست کہیں نظر آئی۔ سچ ہے‘ جو دنیا بھر میں ہوتا ہے‘ ہمارے ہاں نہیں ہوتا اور جو دنیا بھر میں نہیں ہوتا‘ ہمارے ہاں وہی ہوتا ہے۔

یہ ریلیف ورک آگے کیا کرے گا؟ دسیوں لاکھ مکان گرے ہیں۔ کون بنا کر دے گا۔ باہر سے بہت امداد ملی‘ لیکن تباہی کے حساب سے بہت ناکافی ہے۔ شاید دس فیصد ضرورت بھی پوری نہیں کرے گی۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت‘ دونوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ یہ بات پنجاب حکومت اور پختونخوا حکومت کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ ان دونوں صوبوں میں کارکردگی سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس لئے مایوس کن کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ دونوں صوبوں پر عمران خان کی حکومت ہے جو زبان حال یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ میرا کام قوم کو غلامی سے نکالنے کا ہے‘ پانی سے نکالنے کا نہیں۔ یہ جن کا کام ہے‘ وہ کر رہے ہیں۔ میں بری الذمہ ہوں۔ مجھ سے کسی ذمہ داری کے اداکرنے کی توقع کرنے والے ’’شرک‘‘ کے مرتکب ہونگے۔

وفاقی حکومت نے ایک نیا بجلی ٹیکس’’سہ ماہی فیول سرچارج‘‘ کے نام پر لگادیا ہے۔ مطلب تین ماہ پٹرول جتنا مہنگا ہواہے اسی حساب سے معمول کے بلوں میں مزید اضافہ پٹرول مہنگا ہونے کا سرچارج ہر مہینے حساب لگا کر پٹرول کی مہنگائی سے کہیں زیادہ وصول کیا جاتا ہے۔ پھر اس ’’تین ماہی‘‘ جائزے کا مطلب کیا ہے۔کوئی سمجھائے جو بات سمجھ میں آئے۔ فی الحال تو جو بات سمجھ میں آتی ہے‘ وہ محض یہ ہے کہ

خوئے مفتاح را بہانہ بسیار

مرے کو مارے والی بات لوٹ ما رکا بہانہ ہے۔ ابھی تو سہ ماہی سرچارج آنا ہے۔ اس کے بعد شش ماہی۔ پھر نو ماہی اور اس کے بعد سالانہ بھی آئے گا اور جب سالانہ بھی آچکے گا تو دو ماہی والا سرچارج بھی دور کی بات نہیں۔ بجلی کا یونٹ عملاً پچاس روپے سے اوپر نکل گیا۔ مفتاح اسماعیل کا شاہ مدار ستر روپے کا یونٹ کرنے کے بعد ہی سکون سے بیٹھے گا۔

خیر سے ایک خبر میں مفتاح سرکار نے مدبرانہ طورپر فرمایا ہے کہ اکتوبر میں بجلی سستی ہونی شروع ہو جائے گی۔ مفتاح صاحب کو لگتا ہے‘ کوئی بھول ہوئی ہے۔ اپریل فول کا دن یکم اپریل کو منایا جاتا ہے‘ یکم اکتوبر کو نہیں۔ وہ اپنی پالیسی بھلے درست نہ کریں‘ کیلنڈر تو ٹھیک کر لیں۔

خبر ہے کہ نوازشریف جلد سے جلد وطن واپس آنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں پریشانی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک بتاشے کی طرح گھل رہا ہے اور گھلتا ہی جا رہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کی شبانہ روز محنت کو داد دیجئے کہ مقبولیت کی بہت بڑی چٹان کو بتاشے میں بدل ڈالا اور گھلا بھی ڈالا۔

محترم نوازشریف جگ جگ واپس آئیں‘ لیکن اب انہیں نئے بتاشے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ یہ والا تو گھل چکا۔ صاحب امر بالمعروف اور شارح اسلام عمران خان نے گزشتہ روز چشتیاں میں فرمایا کہ جو بھی مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دے گا‘ وہ خدا کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔

ضیاء الحق یاد آگئے۔ انہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا کہ اگر آپ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ میں صدر ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ریفرنڈم کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ یعنی جیت گئے ۔حالانکہ کوئی ووٹ پڑے ہی نہیں تھے۔ حبیب جالب نے لکھا

ہر سو ہو کا عالم تھا

جن تھا یا ریفرنڈم تھا

ان کا تصور اسلام دو باتوں تک محدود تھا۔ نمبر ایک امریکہ سے ڈالروں کی وصولی‘ نمبر دو عوام کو کوڑے مارنا۔ جو ان دونوں باتوں کا مخالف ہوتا‘ وہ اسلام کا دشمن اور خدا کا باغی قرار دیا جاتا۔

وہی بات اب عمران خان نے کر دی۔ جو میرا مخالف‘ وہ مشرک‘ جو دوسری جماعت کو ووٹ دے گا‘ وہ خدا کا باغی۔ ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجازالحق اسلام کی تشریح جدید میں عمران خان کے ساتھ ہیں

بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں

اک مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں

کہا جا سکتا ہے کہ یہ پٹی انہی نے حضرت خان کو پڑھائی ہوگی‘ لیکن نہیں ایسا نہیں ہے۔ حضرت خان خود ’’معلم‘‘ ہیں۔ انہیں کوئی اور کیا سکھائے گا۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ والد کی ’’ڈاکٹرائن‘‘ خان کے ساتھ چلی گئی۔ یہ سوچ کر اعجازالحق بھی ساتھ آملے کہ جہاں وراثت‘ وہیں ہیں۔ خان صاحب نے فرمایا ہے کہ میں فوج پر تنقید کرتا ہوں تو وہ تعمیری تنقید ہوتی ہے۔ اور ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کوئی باپ اپنے بیٹے پر کرتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کچھ سال قبل عمران خان کو ’’نکے‘‘ (چھوٹے یا منے) کا خطاب دیا تھا۔ انہیں مبارک ہو کہ ان کا نکا نہ صرف ابا بن گیا ہے بلکہ اپنے ’’نکے‘‘ پر تعمیری تنقید بھی کر رہا ہے۔ کل ہی ایک ورکشاپ کے سامنے سے گزرتے دیکھا کہ ورکشاپ کا مالک ایک چھوٹے سے لڑکے کی ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہے۔ اوئے میر جعفر کی اولاد‘ ڈھنگ سے کام کر‘ اوئے میر صادق کے بچے‘ تیرے ہوش ٹھکانے ہیں کہ نہیں۔ ساتھ ہی دو چار گھونسے‘ لاتیں اسے جڑ دیئے۔ کسی نے روکا کہ ارے یہ کیا کر رہے ہو۔ بولا‘ اس پر تعمیری تنقید کر رہا ہوں

شیخ رشید نے کہا ہے‘ ملک بند گلی میں پہنچ گیا۔

محبت ہو تو ایسی‘ عقیدت ہو تو ایسی۔ اپنے گریٹ خان کا نام ہی ملک رکھ دیا۔

بات البتہ انہوں نے سچ کہی۔ گریٹ خان بند گلی میں ہے بلکہ بیچ بھنور میں ہے۔ گریٹ خان کو پنجاب میں تبدیلی کی خبروں سے پریشانی ہے۔ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی پر الزام لگا رہے ہیں‘ لیکن خان صاحب‘ پہلے اپنے ہوم گرائونڈ پختونخوا کی خبر لیجئے‘ وہاں کچھ ’’پک‘‘ رہا ہے۔ دو ایم پی اے الگ ہو چکے۔ 20 کا گروپ پرتول رہا ہے۔ وہاں ایکس وائے کے علاوہ کوئی مسٹر زیڈ بھی سرگرم ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment